کشمیری صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کیا جائے کے آئی آر کے سربراہ کی ا قوام متحدہ سے فوری مداخلت کی اپیل الطاف وانی

0
37

پریس ریلیز
جمعرات،23 اپریل 2020

کشمیری صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کیا جائے کے آئی آر کے سربراہ کی ا قوام متحدہ سے فوری مداخلت کی اپیل

کالے قوانین کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لاامتناعی سلسے کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ

اسلام آباد: انسانی حقوق کے معروف کارکن اور چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (کے آئی آئی آر) الطاف حسین وانی نے بھارتی قابض حکام کے ہاتھوں کشمیری صحافیوں پر جاری ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کالے قوانین کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لا متناعی سلسے کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے آزادی اظہار رائے کے نام ایک خط میں کے آئی آر کے سربراہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں میڈیا کو دبانہ اور اچھے اورنامور صحافیوں کو خاموش کرنا بھارتی قابض فوج اورحکام کے لئے ایک نیا معمول بن گیا ہے۔ مزاحمتی خطے میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے وانی نے نشاندہی کی کہ بدنام زمانہ غیر قانونی ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اب تک کئی نامور علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے درجنوں صحافیوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ انہوں نے یو اے پی اے کے خطرناک پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”یہ بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کردہ وہ مہلک قانون ہے، جو حکومت کو کسی بھی شخص کو عملی طور پر دہشت گرد قرار دینے کی طاقت دیتا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ حکومت کو ناپسندیدہ افراد کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے مفت لائسنس فراہم کر دیتا ہے اور انہیں دو سے دس سال کی مدت کے لئے جیل بھیجنے کا جوازفرارہم کرتا ہے جو آزادی اظہار رائے کے لئے نہایت ہی خطرناک ہے۔

وانی نے کہا، ”یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اس کالے قانون کے تحت کشمیری صحافیوں کو پولیس اسٹیشنوں میں طلب کیا جاتاہے اور انہیں اپنے ذرائع ظاہر کرنے اور ان کی کہانیاں بیان کرنے پر مجبور کیا گیا۔” انہوں نے کشمیری صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مسرت زہرہ، گوہر گیلانی، پیرزاد عاشق ان درجنوں مشہور صحافیوں میں شامل ہیں جن پر حال ہی میں یو اے پی اے کے بدنام زمانہ ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل، انہوں نے بتایا کہ، ہندوستانی حکام نے اگست 2018 میں یو اے پی اے کے تحت ایک اورابھرتے ہوئے صحافی آصف سلطان کو گرفتار کیا تھا جبکہ قاضی شبلی کو پی ایس اے کے تحت بغیر کسی الزام یا مقدمے کی سماعت کی جارہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک اور صحافی کامران یوسف پر بھی یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ممتاز صحافیوں کو تھانوں میں طلب کرکے انکی تضحیک کی گئی اور بعض صحافیوں کو زدوکوب بھی کیاگیا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کشمیر کو ایک lawless state میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کسی کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے صحافیوں پر بھارت کے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”صحافیوں پر زبردست دباؤ ڈالا گیا ہے، انہیں پولیس کی طرف سے اکثر طلب کیا جاتا ہے، اور انہیں بغیر کسی وجوہ کے زدکوب، ذلیل اور ہراساں کیا جاتا ہے۔انکا کہان تھا کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”میڈیا سے وابستہ افراد کا یہ حق ہے کہ وہ خطے میں رونماہونے والے واقعات کو رپورٹ کریں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا فریضہ آزادانہ طور پر سرانجام دیں،” انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں پر قدگن لگانا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ اظہار رائے کے حق پر ایک ظالمانہ حملہ ہے جس کا ذکر انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں بشمول universal declaration of human rights, International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR), International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights (ICESCR) اوردیگر قوانین میں شامل ہے۔

انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،“ہر ایک کو آزادنہ اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں کسی مداخلت کے بغیر رائے قائم کرنے اور کسی بھی میڈیا کے ذریعے اور کسی بھی محاذ سے قطع نظر معلومات اور نظریات کی تلاش، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے۔

انہوں نے کشمیری صحافی برادری کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، مقبوضہ کشمیر میں صحافی کے علاوہ ناشر حضرات بھی کافی عرصے سے طوفان کی ذد میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ1990سے اب تک بہت سارے صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران کشمیر میں مارے گئے ہیں۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ” صحافیوں، مصنفین اور بلاگرز کے قتل میں ملوث افراد کا کبھی احتساب نہیں کیا گیا”۔

خواتین صحافیوں کی اتھک محنت اوربہادری کی تعریف کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ”آسیہ جیلانی، انسانی حقوق کی کارکن اور واحد خاتون صحافی ہیں جو 20 اپریل، 2004 کو 30 سال کی عمر میں کپواڑہ میں انتخابات کی نگرانی کرتے ہوئے IED کے حملے میں شہید ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی ریاست ان سامراجی ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے میڈیا کودبانے اور کشمیر کی ہر سچی آواز کو خاموش کرنے کے لئے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آئی ہے۔

بھارت کے ان اقدامات کو آزادنہ اظہاررائے اورمیڈیا کی آزادی کے حوالے بین لاقوامی قوانین اور معیار کی براہ راست خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وانی نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ قابض حکام کی جانب سے آزادی اظہار رائے کے حق کو روکنے کی کوشش کا موثر نوٹس لیں۔ انہوں نے یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کو کشمیریوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا جوابدہ ہونا چاہئے۔

For more information, please contact Altaf Wani (+41 77 9876048 / saleeemwani@hotmail.com)

Leave a reply