خطہ پوٹھوہار تاریخی ورثہ تحریر عزیزالرحمن

0
149

پوٹھوہار قدیم تاریخی خطہ ہے یہ مشرق میں دریائے جہلم اور مغرب میں دریائے سندھ کا درمیانی علاقہ ہے جو جنوب کی طرف سالٹ رینج اور شمال میں مری کے پہاڑی سلسلے سے ملتا ہے ۔ پوٹھوہار کا علاقہ اپنے اردگرد کے علاقوں سے بلندی پر واقع ہے جہلم’ چکوال’ اٹک’ راولپنڈی اور اسلام آباد پر مشتمل ہے۔

پوٹھوہار کے تاریخی ورثوں میں پہلا تعارف روات قلعے سے ہے جس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ سولہویں صدی میں یہ قلعہ گکھڑ سردار سارنگ خاں کے قبضے میں تھا جس نے شیر شاہ سوری کے مقابلے میں مغلوں کا ساتھ دیا اور میدانِ جنگ میں شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام خان کے بڑے لشکر سے بے جگری سے لڑتا ہوا اپنے سولہ بیٹوں کے ہمراہ اپنی مٹی پر قربان ہوگیا۔ پوٹھوہار کے اس سپہ سالار کی قبر آج بھی قلعہ روات کے صحن میں واقع ہے۔ پوٹھوہار کے ایک اور تاریخی قلعے روہتاس جو جہلم کے قریب کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ قلعہ تعمیر کرنیوالوں نے جگہ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ یہ ایک بلند مقام تھا جہاں سے پانی زیادہ دور نہ تھا اور قلعے کی فصیل سے کشمیر کے راستے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔

پوٹھوہار کے ایک اور قلعے اٹک جو طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار ہے جسے اکبر بادشاہ نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا اور جس کی تعمیر کا بنیادی مقصد دریائے سندھ پر حملہ آوروں کی گزرگاہ پر نظر رکھنا تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ اہم قلعہ بعد میں بہت سے حکمرانوں کی آماجگاہ رہا۔ پوٹھوہار کے ایک پُراسرار شہر جسے دنیا ٹیکسلا کے نام سے جانتی ہے۔ ٹیکسلا کا شہر اور اس سے جڑی قدیم تاریخ کا تذکرہ اب عالمی سطح پر ہوتا ہے۔ ٹیکسلا کی تہذیب 700 قبل مسیح کی ہے۔ ٹیکسلا کی اسی سرزمین پر چندر گپت موریا نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی تھی’ یہیں جولیاں کے مقام پر وہ قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے۔ دنیا میں سنسکرت کا اولین گرامر نویس پانینی (Panini) بھی اسی درسگاہ میں پڑھاتا تھا۔ معروف دانشور چانکیہ کا تعلق بھی اسی یونیورسٹی سے تھا’ وہی چانکیہ جس کی کتاب ”ارتھ شاستر” کو لوگ اب بھی مملکت کے اسرارووموز سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ 326 قبل مسیح میں یہیں سے سکندرِ اعظم ہندوستان کی حدود میں داخل ہوا اور پھر ایک مقامی راجہ پورس جس کی سلطنت میں پوٹھوہار کا علاقہ بھی شامل تھا نے سکندر کی پیش قدمی کو روک دیا۔ یہ تاریخ میں پنجاب کی پہلی مزاحمت تھی۔

پوٹھوہار کا خطہ صوفیاء کرام سے بھی زرخیز ہے گولڑہ کے پیر مہر علی شاہ اور حضرت بری امام سرکار نے اس خطے میں دین اسلام کی بہت خدمت کی ہے ۔ راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر گولڑہ میں پیر مہر علی شاہ کا مزار ہے۔دوسری طرف اسلام آباد میں بری امام کا مزار بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ پوٹھوہار میں قدم قدم پر تاریخ کے خزانے ملتے ہیں۔ کئی تہذیبوں کے نشان ملتے ہیں۔ ایک طرف کٹاس راج کا قدیم ہندو مندر ہے’ پھر نندنہ کی وہ پہاڑی جہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کے قطر کی پیمائش کی تھی۔ دوسری طرف مانکیالہ میں بدھوں کا ایک بہت بڑا سٹوپا ہے جسے توپ مانکیالہ کہتے ہیں۔ چکوال میں سکھوں کا قدیم خالصہ سکول اور حسن ابدال میں سکھوں کے روحانی پیشوا کی جنم بھومی پنجہ صاحب واقع ہے ۔

پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر پوٹھوہار کے علاقے گوجر خان کے کیپٹن سرور شہید کو ملا۔ پوٹھوہار کا اعزاز ہے کہ دو نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والوں کا تعلق اس علاقے سے ہے کیپٹن سرور شہید اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید۔

پوٹھوہار قلعوں’ تاریخی عمارتوں’ صوفیوں اور بہادروں کا خطہ ہے جسے جاننے کا مرحلہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔

‎@The_Pindiwal

Leave a reply