لڑکیوں کا سوشل میڈیا تحریر: ماریہ ملک

0
34

دور حاضر میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے مثبت اثرات ہیں وہیں پر ایک تعداد اپنی منفی سوچ اور عوامل سے سوشل میڈیا سے منسلک لوگوں کے لئے تکلیف اور منفیت کا بھی باعث ہے۔
ذاتی حیثیت میں کوئی بھی چیز بُری نہی ہوتی جبتک اُس میں منفی عوامل کی آمیزش نہ کر دی جائے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوانے کے لیے ایک مضبوط اور وسیع پلیٹفارم مہیا کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کُچھ منفی سوچ کے حامل لوگوں کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی برائی کے اثرات سے بچ نہ پایا۔
سوشل میڈیا پر مرد و زن اپنی صلاحیات کو بروئےکار لانے میں یکساں طور پر متحرک اور اپنی قابلیت کی نکھار میں مصروفِ عمل ہیں۔
لیکن ایک بڑی تعداد اُن خواتین کی بھی ہے جو سوشل میڈیا پر موجود اوباش نوجوانوں کے منفی عوامل کی شکار نظر آتی ہیں اور بعظ اوقات انہی ہراسانی کیوجہ سے کنارہ کشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ دنیا کے بائیس مختلف ممالک کی لڑکیوں پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق 60 فیصد لڑکیوں کو سوشل میڈیا پر بدسلوکی یا ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹفارمز میں سے فیس بُک پر سب سے سے زیادہ خواتین کو بدسلوکی کاسامنا نوٹ کیا گیا ہے۔

ایک عالمی سروے کے مطابق آن لائن بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کی وجہ سے لڑکیاں سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کرنےپر مجبور ہورہی ہیں۔ اس سروے میں شامل 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کے مطابق انہیں کسی نہ کسی قسم کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لڑکیوں پر حملے سب سے زیادہ فیس بک پر ہوتے ہیں، اس کے بعد انسٹاگرام، واہٹس ایپ اور سنیپ چیٹ کا نمبر ہے۔
پلان انٹرنیشنل نامی تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے میں 22 ممالک میں 15 سے 22 برس کی عمر کی 14000 لڑکیوں سے بات کی گئی۔ اس میں امریکا، برازیل، یورپین ممالک اور بھارت کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔  ادارے کے مطابق ان لڑکیوں سے تفصیلی گفتگو کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ بدسلوکی کا یہ سلسلہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی بدولت نوجوان اور ٹیلینٹڈ لڑکیوں کی بڑی تعداد خود یا اپنی فیملی کی وجہ سے سوشل میڈیا کو چھوڑنے پر مجبور ہوئیں

فیس بُک
 سوشل میڈیا پر خواتین پر بد سلوکی اور ہراسانی ایک عام بات تصور کی جاتی ہے۔ فیس بک پر یہ حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔  39 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں فیس بک پر بدسلوکی اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے کے مطابق انسٹا گرام پر 23 فیصد، واہٹس ایپ پر 14 فیصد، اسنیپ چیٹ پر 10 فیصد، ٹوئٹر پر 9فیصد اور ٹک ٹاک پر6 فیصد لڑکیوں کو  ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کا رجحان پایا گیا ہے۔ جو بتدریج بڑھ رہا ہے

کوئی سوشل میڈیا محفوظ ہے؟
سروے سے اندازہ ہوا کہ بدسلوکی یا ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ہر پانچ میں سے ایک لڑکی نے سوشل میڈیا کا استعمال یا تو بند کردیا یا اسے بہت حد محدود کردیا۔ سوشل میڈیا پر بدسلوکی کے بعد ہر دس میں سے ایک لڑکی کے اپنی رائے کے اظہار کے طریقہ میں بھی تبدیلی آئی۔
سروے میں شامل 22 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ یا ان کی سہیلیوں نے ہراسانی کے خوف کی وجہ سے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
سروے میں شامل 59 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پرحملے کا سب سے عمومی طریقہ توہین آمیز، غیر مہذب اور نازیبا الفاظ اور گالی گلوچ کا استعمال تھا۔  41 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ ارداتاً شرمندہ کرنے کے اقدامات سے متاثر ہو کر کنارہ کش ہوئیں، حتیٰ کہ باڈی شیمنگ‘ اور جنسی تشدد کے خطرات کے خوف نے اُنہیں مجبور کر دیا۔ اسی طرح 39 فیصد نسلی اقلیتوں پر حملے، نسلی بدسلوکی کی شکار ہوئیں۔

خود اعتمادی کو زوال
پلان انٹرنیشنل کی سی ای او اینی بریگیٹ البریکسٹن کا کہنا تھا کہ ”اس طرح کے حملے جسمانی نہیں ہوتے لیکن وہ لڑکیوں کی اظہار رائے کی آزادی اور سوشل ایکٹیویٹی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں اور ان کے اعتماد محدود کردیتے ہیں۔

اینی بریگیٹ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو آن لائن تشدد کا خود ہی مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
فیس بک اور انسٹا گرام انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ بدسلوکی سے متعلق رپورٹوں کی نگرانی کرتے ہیں اور دھمکی آمیز مواد کا پتہ لگانے کے لیے آرٹیفیشل یا فہمی انٹلی جینس کا استعمال کرتے ہوئے کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
ٹوئٹر کا بھی کہنا ہے کہ وہ ایسی تکنیک کا استعمال کرتا ہے جو توہین آمیز مواد کی نشاندہی کرسکے اور اسے روک سکے۔
سوشل میڈیا مینجمنٹ کے اِن اقدامات کے باوجود مذکورہ بالا سروے  سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے والی تکنیک اب تک اُس طرح سے موثر نہیں رہی۔
چنانچہ مزید اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اِس اخلاقی اور قانونی جُرم کی روک تھام کی جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنی بیٹیوں کے اعتماد اور ہمت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اُن کی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ وہ معاشرے میں خود اعتمادی کے ساتھ ہر آنے والے چیلنج کے ساتھ کامیابی سے نمٹ سکیں۔ شکریہ

Leave a reply