سہگل حویلی سے لال حویلی تحریر: عزیزالرحمن

راولپنڈی میں سہگل حویلی کی مرکزی عمارت، جو اب لال حویلی کے نام سے مشہور ہے، شہر کے بالکل وسط میں بوہڑ بازار میں ایک سو سال سے زائد زیادہ عرصے سے کھڑی ہے۔راولپنڈی شہر میں اس سے قبل ایسی کوئی عمارت نہ تھی۔ اس عمارت پر لکڑی، پیتل، چاندی اور دیگر دھاتوں کا استعمال کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس عمارت میں ایک کیمیائی لکڑی کا استعمال کیا گیا اور شہر میں یہ عمارت اپنی مثال آپ تھی۔ عمارت دو حصوں پر مشتمل تھی جس کا ایک حصہ مردوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ مرکزی اپارٹمنٹ اور پیچھے سے ایک حصہ خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ حویلی میں سہگل اور بدھاں بائی کے کمروں کو اعلیٰ پودوں اور پھولوں سے مزین کیا گیا تھا جو بوہڑ بازار میں کھلے بازاروں سے منسلک تھے۔ بدھاں بائی نے لال حویلی میں منتقل ہونے کے بعد رقص چھوڑ دیا تھا۔ راج سہگل نے حویلی کے اندر بدھاں بائی کے لیے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جبکہ اپنی عبادت کے لیے ایک مندر تعمیر کرایا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ حویلی ایک مہاجر کشمیری خاندان کو الاٹ کی گئی ۔

بدھاں بائی کی اس داستان نے سہگل حویلی کو جنوں والی حویلی بنا دیا۔ سو برس بیت چکے لیکن محبت کی ادھوری داستان مر کر بھی زندہ ہے، بدھاں بائی کی یادیں پرچھائیاں بن کر آج بھی لال حویلی کے در و دیوار میں رقصاں ہیں۔

انمول پیار کی لازوال کہانی ایک صدی کا قصہ ہے، کہا جاتا ہے کہ اس حویلی کو شاہ راج سہگل نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک جواں سال مسلم رقاصہ بدھاں بائی کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مشہور ہے کہ سہگل جو جہلم کے ایک امیر کبیر ہندو خاندان سے تعلق رکھتا تھا سیالکوٹ کی اس رقاصہ سے ایک شادی کی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ بدھاں کے گھنگھروں کی گھن سہگل کے دل پر ایسی اثر انداز ہوئی کہ پہلی ہی نظر میں سہگل بدھاں بائی کو دل دے بیٹھا اور اس کو شادی پر آمادہ کر لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان دونوں کی شادی ہو گئی اور سہگل باندھ بائی کو سیالکوٹ سے راولپنڈی لے آیا اور اس کے لیے ایک حویلی تعمیر کروائی اور اپنا پیار امر کر ڈالا۔

1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا تو محبت بھی تقسیم ہو گئی، راج سہگل کو ہندوستان جانا پڑا لیکن بدھاں بائی یہیں رہ گئیں۔ پوری محبت کی اس آدھی کہانی میں پر اسرار موڑ اس وقت آیا جب بدھاں بائی اپنے بھائی کی موت کے بعد اچانک حویلی چھوڑ کر کسی گمنام وادی میں کھو گئیں۔ بدھاں کے بعد سہگل حویلی پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لئے اور اس حویلی کو جنوں کی حویلی کہا جانے لگا۔ وقت گزرا اور پھر اس حویلی کو نئی شناخت اس وقت ملی،جب 1985ء میں شیخ رشید نے سہگل حویلی کو خرید کر لال حویلی کا نام دے دیا، اب یہ حویلی محبت کی خوشبو کی بجائے سیاست کے دھوئیں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔

کبھی یہ حویلی محبت کے علامت ہوا کرتی تھی جو آج کل عوامی مسلم لیگ کا پبلک سیکرٹریٹ ہے اور پارٹی کے سربراہ و وفاقی وزیر برائے داخلہ شیخ رشید احمد کی ملکیت بتائی جاتی ہے اور سیاسی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ 1985ء کے بعد شیخ رشید احمد نے اس کو سیاست کا گڑھ بنایا اس لال حویلی نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی میزبانی کی جن میں موجودہ اور سابقہ وزیراعظم شامل ہیں ۔ اسکے علاوہ 90 کی دہائی میں جب الیکشن ہو رہے تھے تو پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے بی بی سی نے انٹرویو کیا اور راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے بارے میں سوال کیا اسکے بعد صحافی نے بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کو مشورہ دیا کہ” آپ راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کو ٹکٹ لال حویلی کو دے دیں ۔”وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اب لال حویلی کو فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔

 

Comments are closed.