مردم شماری ملتوی ، مقبوضہ کشمیر کے بارے مودی کی ایک اور سازش سامنے گئی

0
27
modi

مردم شماری ملتوی ، مقبوضہ کشمیر کے بارے مودی کی ایک اور سازش سامنے گئی

باغی ٹی وی : مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے بھارتی ہتھکنڈے جاری ہیں۔ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے مودی نے کمر باندھ لی۔

ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو ثبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں 58% رَقبہ لَداخ، 26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے۔ ریاست کی 55 % آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43% جموں اور 2% لَداخ میں رہتی ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68% حصہ مسلمانوں، 28% ہندوؤں، اور 4% سِکھ اوربُدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کرنا اور مسلمانوں کو اقلیت بنانا ہے.

نئے ڈومیسائل قانون کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا۔ ان میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں بھی شامل ہیں، 10 ہزار سے زائد مزدوروں کو بِہار سے کشمیر میں بسایا جائے گا جبکہ چار، پانچ لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔

کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں و کشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 تبدیل کر دیا گیا۔ اقدام کا مقصد افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دینا ہے۔ مودی سرکار نے 20 ہزار کنال زمین ہندو سرمایہ داروں، 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں جبکہ سیکیورٹی فورسز کیلئے خصوصی سرٹیفیکیٹ شرط ختم کر کے بارہمولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129 کنال اراضی دے دی۔

بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53 ہزار 353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں۔ حلقہ بندیوں کی توڑ پھوڑ بھی شروع کر دی گئی۔ منصوبے کے تحت قانون ساز اسمبلی کی 7 سیٹیں بڑھائی جائیں گی۔ یہ سیٹیں کشمیر کی بجائے جموں کو دی جائیں گی، حالانکہ کشمیر کی آبادی زیادہ ہے، نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابی ڈھونگ سے سادہ اکثریت حاصل کی جائے گی۔ رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل نیا ڈویژن بنایا جا رہا ہے

سیکیورٹی فورسز کیلئے اب زمین حاصل کرنے کیلئے خصوصی سر ٹیفیکیٹ (NOC) کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صرف بارہ مُولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129کنال اراضی ہتھیا نے کا عمل جاری۔

ایک تو بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53,353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں اور اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو سٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سینکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دے دی ہے۔ اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش کھل کر سامنے آگئی۔

محبوبہ مُفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اُٹھائی تھی کہ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سر مایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔

مودی سرکار نے 20 ہزار کنال زمین کوڑیوں کے دام ہندو سرمایہ داروں کیلئے ہتھیا لی ہے اور مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر گلوبل انوسٹرز سمٹ میں 43 کمپنیوں کی 137000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری دراصل مقبوضہ وادی کی اراضی اور وسائل کے استحصال کا منصوبہ ہے۔

بھارتی حکومت 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے ان میں 15000 ایکڑ دریاؤں سے ملحقہ اراضی شامل ہے۔

24جولائی 2020 کو بھارتی حکومت نے35 مختلف جگہوں پر (488 ہیکٹر / 1205ایکٹر) ریاستی اراضی کو صنعتوں کیلئے منظور کر دی۔ قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے اور ان کارستانیوں سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی و معاشرتی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیری معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔

جموں و کشمیر میں BJPکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی(JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے اور Delimitation Commission کو ایک سال میں کام مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

نئے منصوبہ کے تحت قانون ساز اسمبلی کی7 سیٹیں بڑھائی جائیں گی اور یہ سیٹیں کشمیر کی بجائے جموں کو دی جائیں گی حالانکہ کشمیر کی آبادی زیادہ ہے۔

Leave a reply