کسانوں کا معاشی قتل تحریر-محسن ریاض

0
37


کسی بھی ملک کی ترقی میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے اور پاکستان کو ایک زرعی ملک کی حثیئت سے جانا جاتا ہے اس وقت پاکستان کی چالیس فیصد لیبر زراعت کے شعبے میں اور باقی دوسرے تمام شعبوں سے منسلک ہے کسی ملک کی ترقی کا ماپنے کے لیے جی ڈی پی کو دیکھا جاتا ہے یعنی یہ ملک معاشی لحاظ سے کتنی ترقی کر رہا ہے اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی میں بیس فیصد حصہ زراعت کا ہے یعنی یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے مگر اس شعبے کو ہر دور حکومت میں نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسان بدحال سے بدحال ہوتا گیا اور سرمایہ دارکا سرمایہ زیادہ سے زیادہ ہوتا گیا -پاکستان میں جو اہم فصلیں کاشت کی جاتی ہیں ان میں کپاس، گندم ، چاول اور مکئی شامل ہیں کپاس کے لیے جنوبی پنجاب کی آب وہوا موزوں ترین تھی اور یہاں سے بہت زیادہ مقدار میں کاٹن پیدا کی جاتی تھی مگر گزشتہ ادوار کی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے شوگر ملوں کو اس علاقے میں شفٹ کر دیا گیا اور جب کسانوں نے دیکھا کہ انہیں اس فصل میں مناسب مصاوضہ مل رہا ہے تو انہوں نے گنے کی فصل لگانا شروع کر دی اور اس طرح یہاں سے ایک لحاظ سے کپاس کی فصل کو تقریباً ترک کر دیا گیا حالانکہ ارباب اختیار کو چاہیے تھا کہ اس علاقے کو کاٹن زون ڈکلئیر کرتے اور شوگر ملوں کو یہاں منتقل ہونے سے روکتے مگر شائد ان کی ملی بھگت شامل تھی اس کے بعد گندم کی فصل کا ذکر کرتے ہیں جس میں پاکستان کچھ عرصہ پہلے تکا خودکفیل تھا مگر گزشتہ سال سے ناقص انتظامات کی وجہ سے اس کا بحران پیدا ہو رہا ہے اس کی ایک وجہ تو نااہلی اور بد انتظامی ہے جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا اور دوسری اہم وجہ مناسب معاوضہ نہ ملنا اور فصل پر زیادہ اخراجات ہونا ہے اسی لیے کسان دلبرداشتہ ہو کر اپنی زمینیں بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے کاشتکاری کے لیے زمین کی کمی ہو رہی ہے اور اس پر ہاوسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں اس سے ملک میں کسی بھی فصل کی اوسط کم ہو رہی ہے اور ہمیں اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے جس سے ملکی ترقی کی رفتار سست ہے اس کے بعد مکئی کی فصل کی جانب آتے ہیں سارا سال اس کی قیمت پندرہ سو روپے کے قریب ہوتی ہے مگر جب کسانوں سے خریدنے کا اقت آتا ہے تو اس کو قیمت گر کر سات سو کے قریب آ جاتی ہے کیونکہ کسان کے پاس تو اتنا سرمایہ نہیں ہوتا اس نے یہ فصل بیچ کر اگلی فصل کاشت کرنی ہوتی ہے لہذا سارا منافع سرمایہ دار لے جاتے ہیں – اس کے بعد چاول کی فصل کی جانب آتے جو کہ ملکی زراعت میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس کو ملکی ضروریات پورا کرنے کے بعد بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے مگر اس میں بھی کسان کو خون پسینے کی کمائی کی صورت میں چند ٹکے ہی میسر آتے ہیں اس فصل کو پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہی اور ڈیزل کو موجودہ قیمت ۱۲۰ روپے کے قریب ہے جس کی وجہ سے کسان کی کمائی کا ایک بڑا حصہ اس میں خرچ ہو جاتا ہے اس کے بعد کھادوں کا نمبر آتا ہے موجودہ حکومت نے کسانوں کے لیے سبسڈی کا آغاز کیا ہے مگر اس کا طریقہ کا بہت پیچیدہ ہے جس کے لیے کارڈ کا اجرا کروانا پڑتا ہے مگر اکثر لوگ اس سے ناواقف ہیں اور وہ اس آفر سے محروم ہیں اس کے علاوہ کھاد کی موجودہ قیمت چھ ہزار تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے اس دور حکومت میں تو کسانوں کی خوشحالی کا کوئی امکان نہیں-

ٹویٹر-mohsenwrites@

Leave a reply