میری تو پولیس بھی سپانسرڈ ہے ۔۔!  تحریر ؛ علی خان

0
31

@hidesidewithak

"پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی، تعاون: حق بناسپتی "۔”تیزرفتاری سے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں مت ڈالیں: تعاون برق موٹرز”۔”تھانہ کورس پارک ایک سو میٹر بائیں جانب، تعاون :کڑک چائے”۔ یہ اور ان سے ملتے متعدد بل بورڈز اور سائن بورڈز آپ کو ہر چھوٹے بڑے شہر میں ضرور نظر آتے ہیں۔ انہیں پڑھ کر یہ سمجھنا قاصر ہوجاتا ہے کہ یہ متعلقہ محکمے کی جانب سے مفاد عامہ کے پیغامات ہیں یا پھر ساتھ بتائے کاروبار کے اشتہارات۔  سب سے اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ایسے بورڈز اوراشتہار زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پیغامات سے مزین ہوتے ہیں۔  یہ کمپنیاں اور  کاروباری ادارے ایسے اشتہارات کو کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی یعنی  کاروباری سماجی ذمہ داری  کے  عنوان سے  چھواتے اور لگواتے ہیں۔لیکن  کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟؟؟ 

سب سے پہلے تو  کارپوریٹ سوشل  ریسپانسبلٹی کا یہاں اطلاق مبہم ہے۔    ملکی  اور بین الاقوامی قوانین  میں سی ایس آر کا مطلب و مفہوم اس علاقے خطے یا ملک کے شہریوں کو معیار زندگی بہتر کرنے میں مدد کرنا  ہے جہاں  متعلقہ کمپنی کام یا کاروبار کر رہی ہو۔اس میں صحت عامہ کی سہولیات فراہمی، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ کمپنی کا نام سرکاری اداروں کے ساتھ اشتہاری بورڈوں پر ٹانک دینےسے کونسی سماجی ذمہ دار ی ادا ہوتی ہے ؟یہ حل طلب سوال ہے۔ 

ایسے اشتہار نہ صرف  سماجی ذمہ داری قوانین کی غلط تشریح ہیں بلکہ بہت سے حوالوں سے  ذاتی فائدے، اثر و رسوخ بڑھانے اور  غیر قانونی کاموں کو جواز دیتے ہیں۔ پہلے تو اس مد میں خرچ کی جانے والی رقم کو ٹیکس چھوٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا ادارہ جسکا نام محکمہ جاتی بورڈز پر کنندہ ہو سرکاری اہلکاروں کے لیے نو گو ایریا بن جاتا ہے اور وہ اسکی جانب رخ کرنے سے قبل کئی بار سوچتے ہیں چاہے وہاں کتنا ہی غیر قانونی کام ہی کیوں نہ ہورہا ہو۔ اب ایک ٹریفک کانسٹیبل ایسی کمپنی کی گاڑی کا چالان کیسے کاٹے گا جس کی ہر تقریب میں اسکا اعلیٰ افسر شرکت کرتا ہو؟ فوڈ انسپکٹر کے لیے ایسی فیکٹری میں کارروائی کرنا کہاں آسان ہوگا جو شہر میں ہونے والی تمام سرکاری تقاریب میں مفت کھانا فراہم کرتی ہو؟ 

سرکاری سطح پر ایسی سماجی ذمہ داری سرگرمیاں کوئی اب کی بات نہیں بلکہ دور قدیم میں جب کوئی سرکاری افسر کسی شہر کے دورے پر آتا تو اسکے قیام و طعام اور تفریح کی ذمہ داری مقامی ماتحتوں پر آجاتی۔ پٹواریوں میں ایک مقامی زمینداروں سے دیسی ککڑ اکھٹے کرتا تو دوسرا صاحب اور ہمراہیوں کے لیے نئے بستروں کا انتظام کرتا۔ گرمیاں ہونے کی صورت میں نئے   پنکھوں کا انتظام کرنا بھی انہی سرکاری اہلکاروں کے ذمہ آتا ۔ اس مد میں آنے والی کل رقم صاحب کے ذاتی اکاونٹ میں منتقل ہوجاتی۔ یہی سلسلہ بڑھتے بڑھتے  آج سرکاری اداروں کے بورڈوں تک  پہنچ چکا

کچھ شہروںمیں   اب پولیس کے گشت کرنے والے دستے کے موٹرسائیکلوں پر بھی یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔  نجی کاروباری  اداروں کی جانب سے  فراہم کردہ موٹرسائیکل انکے عطیے کو نہ صرف شہر بھر میں مشتہر کرتے ہیں بلکہ  قانون اور کاروبار کے مابین قریبی تعلق کا پیغام بھی عوام تک پہنچاتے ہیں۔  ارباب اختیار کو اس سلسلے کا جائزہ لینے  اور حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہاتو کوئی بعید نہیں کسی دن اہلکاروں کی وردیوں کے ایک بازو پر چائے والی کمپنی کا اشتہار کنندہ ہو اور دوسری جانب  بناسپتی گھی کا۔ پولیس موبائل پر آئس کریم ، ٹوتھ پیسٹ، صابن اور ہیئر آئل کی تشہیر بھی دور کی بات نہیں لگ رہی۔ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ راہ چلتے  ہیلمنٹ نہ پہننے پر آپکا چالان کاٹا جائے اور چالان کی پرچی پر محافظ ہیلمنٹ بنانے والے کا بطور تعاون کردہ ذکر ہو ۔

Leave a reply