امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سائنسدانوں نے ہماری ملکی وے کہکشاں میں ایک آزادانہ گشت کرتا ہوا بلیک ہول دریافت کیا ہے۔
باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق یہ دعوٰی کیلیفورنیا میں قائم یونیورسٹی آف برکلے کے سائنسدانوں نے کیا ہے محققین کا ماننا ہے کہ جب بڑے ستارے تباہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی جسامت، توانائی اور مادہ خرچ کرنے کے لحاظ سے بلیک ہول یا دیگر اقسام کے اجسام میں بدل جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نظری طور پر ہماری کہکشاں میں بہت سارے بلیک ہول ہونے چاہئیں۔
ناسا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی اب تک کی سب سے بڑی لی گئی تصویر
لیکن سائنس دانوں کو ان کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہا ہے یہ بِکھرے ہوئے بلیک ہول بصری لحاظ سے ویسے بھی ہماری آنکھ سے اوجھل ہوسکتے ہیں ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے کہ ہماری کہکشاں میں ستاروں کے درمیان 100 ملین بلیک ہول گھومتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی مکمل طور پر الگ تھلگ بلیک ہول کی شناخت نہیں کی۔
اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک آزادانہ گشت کرتے بلیک ہول کی نشان دہی کی ہے جو ہماری کہکشاں میں ایک لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہا ہے۔
ایلون مسک کا رواں سال انسان نما روبوٹ متعارف کرانے کا اعلان
سائنس دانوں نے اس کی نشان دہی گریویٹیشنل مائیکرولینسنگ کا استعمال کرتے ہوئے کی ہے۔ اس عملی کو ثقلی لینسنگ بھی کہا جاتا ہے جس میں کسی بھاری بھرکم جسم ، مثلاً بلیک ہول کے وجہ سے پس منظر سے آنے والی روشنی کی شعاعیں خمیدہ ہوسکتی ہے اور یوں ہمیں ان دیکھے بڑے جسم کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
یہ شے ہماری کہکشاں میں ہونے کے باوجود ہزاروں نوری سال کے فاصلے کی دوری پر ہے سائنس دانوں کے ایک گروپ کے مطابق اس بلیک ہول کا وزن سورج سے 1.6 سے 4.4 گُنا زیادہ ہے جبکہ دوسرے گروہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وزن سورج سے 7.1 گُنا زیادہ ہے۔