موت زندگی کو ختم کرنے نہیں آتی بلکے موت زندگی کا حصہ ہے جس میں سے ہر ذی روح نے گُزرنا ہے، انسانی جسم لافانی نہیں ہے یہ زمین پر ایک مُدت سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، عام طور پر جسم زمین پر کئی رنگ بدلتا ہے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا یہ تمام علامات جسم کی پل پل موت کی طرف بڑھنے کی خبر ہے جسم پر ظاہر ہونے والی چند علامات جو جسم کے ایکسپائر ہونے سے کُچھ گھنٹے پہلے ظاہر ہوتی ہیں یہ علامات نشانیاں ہیں جسم کے لیے بھی اور اُس جسم کی روح سے محبت کرنے والوں کے لیے بھی کہ وقت بہت قریب آگیا ہے ایسے موقع پر محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ جسم کو تنگ نہ کریں اور اُسے کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچائیں تاکہ روح کے جسم سے جُدا ہونے کا یہ عمل آسان ہوجائے
موت سے چند گھنٹے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں:
بھوک اور پیاس کا مٹ جاناجب جسم ایکسپائر ہونے کے بلکل قریب چلا جاتا ہے تو انسانی حاجات جیسے بھوک اور پیاس کی ضرورت محسوس ہونی بند ہو جاتی ہے اور لاغر جسم مزید توانائی حاصل کرنے کے لیے خوراک کی درخواست بند کر دیتا ہے
دیگر انسانی حاجات ختم ہو جاتی ہیں:
موت سے چند گھنٹے پہلے انسانی جسم پاخانہ اور پیشاب کی حاجت محسوس کرنا بھی بند کر دیتا ہے یہ گویا نشانی ہے روح کے جسم کو چھوڑنے سے پہلے کی موت سے کُچھ گھنٹے پہلے جسم درد سے کراہتا ہے اور اُس پر خوف کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں جس میں کپکپی وغیرہ طاری ہوسکتی ہے
دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا:
ساری زندگی خون کو پمپ کرنے والا دل کی دھڑکنیں موت سے کُچھ دیر پہلے بے ترتیب ہوجاتی ہے اور نبض کو ہاتھ سے محسوس کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ یہ اعٖضا ءاپنا وقت پُورا کر چکے ہیں اور عنقریب بجھنے والے ہیں
جسم کا درجہ حرارت:
جسم کا وقت جب ختم ہونے والا ہوتا ہے تو آنکھوں میں آنسو چمکتے ہیں اور جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے اور دوبارہ بحال نہیں ہوتا ایسے موقع پر اُسے شدید پسینہ بھی آسکتا ہے
محسوسات کم ہوجانا:
روح جب جسم کو چھوڑنے کے لیے بلکل تیار ہو یعنی موت سے تقریباً 24 گھنٹےپہلے تو ہاتھوں پاؤں گھٹنوں کی جلد پر محسوسات ختم ہو جاتی ہیں اور ان کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ نیلا یا ارغوانی رنگ اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے
سانس کی بے ترتیبی:
یہ نشانی واضح نشانی ہے جس میں سانس اُکھڑنا شروع ہوتا ہے اور بے ترتیب ہوتا چلا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے بُجھ جاتا ہے
سکرات کی حالت
میڈیکل سائنس اس حالت کو نہیں مانتی مگر میٹافزکس کے سمجھنے والےجانتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب رخصت ہونے والا لینے آنے والوں کو محسوس کرنے لگتا ہے اور دیکھنے لگتا ہے ایسے موقع پر اُس کے مُنہ سے کُچھ ایسے الفاظ نکلتے ہیں جنہیں سُن کر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسے الوژن ہو رہی ہے جسم جب کمزور اور لاغر ہوتا ہے تو الوژن بھی ہوسکتی ہے مگر سقراط الوژن نہیں ہے اور اہل علم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ساری زندگی خون کو پمپ کرنے والا دل کی دھڑکنیں موت سے کُچھ دیر پہلے بے ترتیب ہوجاتی ہے اور نبض کو ہاتھ سے محسوس کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ یہ اعٖضا ءاپنا وقت پُورا کر چکے ہیں اور عنقریب بجھنے والے ہیں
جسم کا وقت جب ختم ہونے والا ہوتا ہے تو آنکھوں میں آنسو چمکتے ہیں اور جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے اور دوبارہ بحال نہیں ہوتا ایسے موقع پر اُسے شدید پسینہ بھی آسکتا ہےایسے موقع پر کمزور دل لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے مریض کے قریب نہ رہیں اور اُس کے قریب بلکل مت روئیں کیونکہ جسم کی سماعت کی حس کام کر رہی ہوتی ہے اور محبت کرنے والوں کو تکلیف میں دیکھنا بھی ایک تکلیف ہے اس لیے رخصت ہونے والی روح کے جسم کو اس تکلیف میں مبتلا نہ کریں اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور ایسے موقع پر ختم ہونے والے جسم کو سخت ہاتھ مت لگائیں اور نرم ہاتھوں سے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں اور بار بار اُس کی جگہ تبدیل نہ کریں اور جتنا ممکن ہو اُس کے لیے سکون فراہم کریں تاکہ اُس پر یہ عمل آسان ہو سکے کُچھ لوگ ایسے وقت پر مریض کو کلمہ پڑھنے پر مجبور کرتے ہیںاگر مریض مسلمان ہے توہرگز ایسا مت کریں اور مریض کو مجبور کرنے کی بجائے آہستہ آواز میں اُس کے قریب یہ کلمات ادا کریں تاکہ وہ سُنے کیونکہ اُس کی سماعت کی حسیں کام رہی ہوتی ہیں اور یاد رکھیں کے بطور مسلمان وہ یہ کلمات اپنی زندگی میں ادا کر چُکا ہے اس لیے اگر وہ ایسے موقع پر زبان کی کمزوری کی وجہ سے یہ کلمات ادا نہ کر پائے تو کوئی بات نہیں اور ہرگز اُسے گناہگار شمار مت کریں اللہ تعالی نے اُس کی زبان سے یہ کلمات اُس کی زندگی میں سُن رکھے ہوتے ہیں اور وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے