ملکی بحران اور ان کاحل…!!! تحریر:جویریہ بتول

0
33

ملکی بحران اور ان کاحل…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
وطنِ عزیز اس وقت کئی بحرانوں کی زد میں ہے، کورونا وبا جہاں بے قابو ہو کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے وہیں وطنِ عزیز میں بھی متاثرین کی بڑھتی تعداد تشویشناک بات ہے۔
لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی پرواہ نہ کرنے کا خمیازہ قوم اس تیزی سے پھیلتے ہوئے مرض کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
اور آئے دن متاثرین کی تعداد میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔
کُچھ وقت کاروبار بند رہنے کی وجہ سے اربوں روپے کے نقصانات الگ ہیں جن کا حل کاروباری حضرات نے ضرورت کی تمام اشیاء بشمول ملبوسات وغیرہ کی ہوشربا قیمتیں بڑھا کر نکالا ہے۔
پیٹرول مافیا نے الگ ایشو کھڑا کر کے پمپس پر شہریوں کی ذلت کو ہوا دی ہے کہ جہاں لمبی لمبی قطاریں ہوش بھلا دیتی ہیں،دیہاڑی دار ڈرائیور جو اپنے رکشوں اور گاڑیوں کا پہیہ رواں رکھ کر دن بھر کی روزی کماتے ہیں،پریشانی اور نفسیاتی مسائل کا شکار نظر آ رہے ہیں،
جو اپنے گھر والوں اور بچوں کے اخراجات کی مد پوری کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔
قومی نوعیت کے مسائل قومی جذبہ سے ہی حل ہونے چاہئیں۔
دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے مجبور مسافروں کو بھی بھاری اخراجات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹڈی دل کے فصلوں پر حملے نے زرعی پیداوار کے شعبے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔
اور ایک غذائی بحران کا بھی قوم کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف آٹے اور چینی کے بحران وقتًا فوقتًا پیدا ہو کر شہریوں کے لیئے الگ پریشانی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔
گندم کی فصل اس بار ویسے بھی اکثر علاقوں میں بے موسمی بارش اور ژالہ باری سے نقصان سے دو چار ہوئی ہے۔
پاکستان کسان اتحاد کے مطابق گندم کی کاشت کے اکثر علاقوں میں جو پیدوار فی ایکڑ پچاس سے ساٹھ من تھی،وہ ان بارشوں کی وجہ سے اس بار تیس سے پینتیس من رہ گئی ہے۔
یعنی کورونا کی اس وبا کے پیچھے بحرانوں میں شدت آ گئی ہے اور ان کا تعلق بھی ضروریاتِ زندگی اور عام آدمی سے ہے،
کیونکہ سکولز،کالجز بند ہونے کی وجہ سے پڑھائی تو آن لائن ممکن ہے لیکن غذائی قلت کی صورت میں غریب کے لیئے آن لائن خوراک کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔
ٹڈی دل کے حملوں سے متاثرہ فصلوں میں گنا،کپاس اور سبزیوں کی فصل بھی شامل ہیں۔اور زراعت پاکستان کی جی ڈی پی کا بیس فیصد ہے،جہاں معاشی نمو میں کمی کا سامنا ہے۔
نئے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشنز میں بھی اضافہ نہ ہونے کی نوید سنائی دے رہی ہے تو یہ ساری کیفیات اور صورتِ حال ذہنی دباؤ اور اُلجھن کا باعث ضرور ہیں لیکن بحیثیت ایک قوم کے ہم سب کو ان مسائل پر ہی سر پکڑ کر بیٹھنے اور بحث کی بجائے ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اپنی ترجیحات کو کم کر کے فی الحال ضروریات پر فوکس کرنا ہوگا۔
اپنے بجٹ اور اخراجات کا ازسر نو جائزہ لے کر اس میں ترمیم کرنا ہو گی تاکہ گھروں کے اندر گزرتا یہ وقت کسی تلخی کی بجائے حلاوت سے گزرے۔
ہم صرف مہنگائی کا رونا روتے ہیں،لیکن اپنے گھر یا کھیت کی زمین پر موسمی سبزیاں اُگا کر اُن کی دیکھ بھال کر کے فائدہ اٹھانے سے کنی کتراتے ہیں۔
ہم بجلی کے بلز پر نالاں دکھائی دیتے ہیں مگر بجلی کے بے دریغ اور غیر ضروری استعمال کی طرف توجہ نہیں کرتے…
ہم پانی کے بحران سے آگاہ رہ کر چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طریقہ سے یہ وائٹ گولڈ ضائع کرنے سے باز نہیں آتے۔
ہم فصلوں کی وسیع پیداوار کے باوجود چند روپوں کے منافع کی خاطر غریب کے لیئے مصنوعی بحران پیدا کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
حالانکہ ہنگامی حالات کے تقاضے ہنگامی ہوا کرتے ہیں،اپنے خاندان،اپنے ارد گرد، مستحقین کا خیال رکھنا ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے،
جو لوگ بھی اس وبا کے پیشِ نظر معاشی مسائل میں ہیں ان کی اعانت بھی اخلاقی فریضہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللّٰہ اور توبہ و انابت سے تیر آنسوؤں کے ساتھ اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں پر صدقِ دل سے معافی بھی مانگیں کہ اللّٰہ تعالٰی ہمیں ان آفات اور وباؤں سے نجات دے،وہی ہمارا خالق،رازق اور مالک ہے۔
ہم جتنی مرضی ترقی کے زینے طے کر لیں لیکن قانونِ قدرت کے آگے بے بس ہی دکھائی دیتے ہیں۔
قومیں افراد سے بنتی ہیں،اور سبھی افراد کا اپنے اپنے شعبے اور میدان میں ادا کیا جانے والا کردار ہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
ورنہ سستی، کاہلی و بے عملی اور صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے سے معاملات نہیں سُلجھا کرتے…!!!
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،
نہ ہو جس کو خیال،آپ اپنی حالت کے بدلنے کا…!!!
بلکہ مسائل سے نکلنے کے لیئے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جہدِ مسلسل اور عزمِ پیہم کی ضرورت بہر حال موجود رہتی ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر،اگر زندوں میں ہے…!!!
ہمیں محض تنقید برائے تنقید کی سوچ سے آگے بڑھ کر بھی سوچنا چاہیئے،
تعمیری،ترقی اور مملکت کی فلاح کی سوچ پیدا کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
الحمدللہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے،بس ہم نے وہ جذبہ بیدار کرنا اور رکھنا ہے جو سازشوں کے جال کاٹ کر رکھ دے،حقائق کا ساتھ دے،قومی مفادات ترجیح بنیں اور ہم ذاتی مفادات کے بھنور سے باہر نکل کر سوچنے والی متحد و مضبوط قوم بن کر سامنے آئیں۔
اپنی اپنی سوچ مسلط رکھنے کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور جلد یا بدیر اُس کے نقصانات واضح ہو کر رہتے ہیں۔
اگر ہم صرف وطنِ عزیز کے لیئے سوچنے والے بن جائیں تو کوئی مسئلہ ایسا نہیں رہے گا جو قابلِ حل نہ ہو،کیونکہ اس مملکت کے قیام کے مقصد کے اندر تمام مسائل کا حل چھپا ہوا ہے مگر بد قسمتی سے ہم اس سے پہلو تہی اختیار رکھے ہوئے ہیں۔
جب قومیں مضبوط اور ایک پیج پر متفق ہو جاتی ہیں تو بڑے سے بڑے بحران سے بھی بآسانی نمٹ جایا کرتی ہیں،یہی تاریخ کے صفحے پر درج سبق ہے…
اسباب کا قحط اتنا نقصان دہ نہیں ہوا کرتا،جتنا نقصان دہ قحط الرجال ہوا کرتا ہے…
مشکل اور آسان ادوار آتے جاتے رہتے ہیں اور تربیت و کردار ہی ان سے نمٹنا بھی سکھاتے ہیں۔
گفتار کی وضاحت بعد میں بھی کی جا سکتی ہے،مگر کردار ادا ہو کر ایک انمٹ باب بن جایا کرتا ہے۔
ہمیں اس چیز کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھ کر آگے بڑھنے کا عزم کرنا ہے…اور اس وطن کے دفاع کے لیئے ہمہ وقت کمر بستہ رہنے کا عہد کرنا ہے وہ دفاع نظریاتی ہو یا دفاعی،
منفی سازشوں کے خلاف تعمیری اور اصلاحی سوچ کا دفاع ہو یا اپنے وسائل کا دفاع،
امانت و دیانت کا سبق پڑھ کر جب ہم عزم بالجزم سے لیڈ کرنے کی ٹھان لیں گے تو یقینِ کامل ہے ہم سے امامت کا کام لیا جا سکے…
ورنہ محض باتوں اور بے عملی سے ہوائی قلعے تو تعمیر ہو ہی جاتے ہیں…
مضبوط بنیاد کی حامل عمارت کبھی استوار نہیں کی جا سکتی کہ جس کی مضبوطی کا انحصار اس کی بنیاد میں ناقص اور خیالی نہیں بلکہ کامل اور مضبوط تعمیری میٹیریل کے استعمال پر ہوتا ہے…!!!!!
ہم میں سے ہر فرد کو کردار ادا کرنا ہے اور ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ…!!!
================================

Leave a reply