ملتان کےگدی نشینوں کا کردار بقلم: عبدالرحمن ثاقب سکھر

0
68

#ملتان کےگدی نشینوں کا_کردار

بقلم:- #عبدالرحمن ثاقب سکھر

شاھ محمود قریشی وزیر خارجہ نے بڑی محنت شاقہ کے بعد پاکستان کو اپنے دیرینہ اور محسن دوست سعودی عرب سے بالآخر دور کردیا۔ موجودہ حکومت نے جہاں دیگر شعبوں میں ناکامی کے جھنڈے گاڑے ملکی معیشت کو تباہ کیا عوام کی زندگی اجیرن بنا دی وہاں پر خارجہ کے محاذ پر بھی پاکستان دوستوں سے دور ہو رہا ہے اور وہ دوست ممالک جہاں پر ہمارے لاکھوں شہری بسلسلہ روزگار مقیم ہیں اور ماہانہ کروڑوں روپے ہمیں زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ یہ وہ محسن ملک ہیں جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام، 1965, 1971 کی جنگیں، ایف 16 سولہ طیاروں کی خریداری، 1998 میں ایٹمی دھماکے،2005 کا تباہ کن زلزلہ، 2010 کا قیامت خیز سیلاب یا ہمارا خالی خزانہ بھرنے کی بات ہو سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہیں۔ نیازی حکومت میں قریشی صاحب نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ رہے گا اور آنے والی نسلیں یاد کریں گی کہ ہمارے وزیر خارجہ نے کس طرح سے کمال مہارت سے پاکستان کو مخلص دوستوں سے دور کیا۔
معروف دانشور اور کالم نگار جناب خالد مسعود خان نے اپنے ایک کالم” تصوف کی آفاقی قدریں ” میں بیان کیا ہے، گویا حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
10جون 1857 کو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 جو بغاوت کے شبہے میں نہتا کیاگیا اور پلاٹون کے کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے تہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کردی تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان واقع پل شوالہ پر دربار بہاوالدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدومشاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لگڑدادا تھے۔ ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا تھا۔ کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیرشاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگا دیں ۔ کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ اور کچھ پار پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سیدسلطان احمد قتال بخآری کے سجادہ نشین دیوان آف جلال پور پیر والا نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کردیا۔ جلال پور پیر والا کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل اولاد میں سے ہیں۔ مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال، ہراج، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔ اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپئے نقد یا ایک مربع اراضی عطاء کی گئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیر سالانہ معاوضہ، مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور آٹھ چاہات (کنویں) جن کی سالانہ جمع ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی۔ مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا۔ مخدوم آف شیرشاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
( ماخوذ از ( تحریک پاکستان میں علماء اہل حدیث کا کردار صفحہ نمبر 28 )
جس کو جاگیر غداری کے صلہ میں ملی ہو وہ اپنے ملک و قوم سے وفا کس طرح سے کرسکتا ہے۔ قوم کو یکسو ہو کر سوچنا چاہیے کہ کس طرح سے یکا یک ایک دیرینہ دوست ہم سے روٹھ گیا اس کا سبب کیا ہے؟
اور اس وقت جس طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے سترسالہ تاریخ میں اس کا کردار کیا ہے؟
ایرانی بلاک میں شامل ہوا جارہا ہے جس ایران نے ہمیشہ سے پاکستان سے دشمنی کا کھلے بندوں ثبوت دیا ہے۔ بلکہ اس کے سارے تجارتی اور جنگی معاہدے بھارت کے ساتھ ہیں۔ اس ایران نے ہمیشہ سے پاکستان میں تخریبی کاروائی کرنے والوں کی پشت پناہی کی۔ اور کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گردوں کو اپنے ویزوں پر پاکستان بھیجا تاکہ وہ پاکستان میں خون کی ہولی کھیلیں۔
اب ہمیں دوست اور دشمن کی تمییز کرنا ہوگی۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

Leave a reply