اٹارنی جنرل نے ایکٹ پردوبارہ جائزے کیلئے دو مرتبہ وقت کیوں مانگا؟چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں خامیاں ہیں،
supreme court01

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جون کے بعد مخدوم علی خان سے ملے ہیں،ہم نے درخواست گزار سمیت دیگر وکلا کی تحریری معروضات دیکھی ہیں،اس کیس میں بہت وقت لگ چکا ہے،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد مختلف درخواستیں دائرہوئی ہیں،

چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے متعلق گزشتہ عدالتی حکمنامے پڑھنا شروع کردیئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی وکیل مخدوم خان کا مدعا ہم سمجھ چکے ہیں، مخدوم صاحب توآج کل سب کے بارے میں ہی بڑے تنقیدی ہوگئے ہیں،اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں خامیاں ہیں، اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کومطلع کیا،اٹارنی جنرل نے جون میں کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اسمبلی دیکھے گی، اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا،نہیں معلوم کہ موجودہ حکومت کا اس قانون سے متعلق موقف کیا ہے، کیا معطل شدہ قانون کو اتنی اہمیت دی جائے کہ اس کی وجہ سے تمام کیسز التوا کا شکار ہوں؟ اٹارنی جنرل نے ایکٹ پردوبارہ جائزے کیلئے دو مرتبہ وقت کیوں مانگا؟وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں کہا کہ اٹارنی جنرل اپنی پوزیشن کے دفاع کیلئے یہاں موجود نہیں ہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مبشرحسن کیس کے فیصلے میں وجوہات دی گئی ہیں،آٹھ ممبرز بنچ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں سن سکتے،اگرآپ کوکوئی اعتراض ہے تونئی درخواست دائرکرکے آجائیں، کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ اعتزازاحسن کیس میں کسی قانون سازی کوکالعدم نہیں قراردیا گیا، اعتزازاحسن کیس میں کہا گیا کہ قانون سازی غیرموثررہے گی، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے یکم اورآٹھ جون کا فیصلہ اس لیے پڑھ کرسنایا ، تاکہ حکومت نے خودتسلیم کیا ناقص قانون سازی کی گئی، عدالتی حکم سے معطل شدہ قانون سازی کےتحت کاروائی متاثرتونہیں کی جا سکتی، خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس وقت ان فیلڈ نہیں معطل ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو قانونی نکات اُٹھائے گئے انھیں ہم سمجھ رہے ہیں، موجودہ کیس میں حکومت پاکستان نے خود اس کیس کو التواء میں ڈالنے کی استدعا کی،ہم یہاں آئین اور قانون کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں، کیس سننے کے لیے ہم میں سے ایک ممبر کو بیرون مُلک سے واپس آنا پڑا، میری ذاتی رائے یہ ہے اس کیس کو چلایا جائے، 2023 والی نیب ترامیم تو مخص ایک ریفائن کرنے کی کوشش تھی اصل نیب ترامیم تو 2022 میں آئی تھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ 2023 والی ترامیم سے متعلق بھول جائیں، چھٹیاں چل رہی ہیں ہم صرف اس کیس کے لیے واپس آئے ہیں، آپ اپنے دلائل کو 2022 والی ترمیم تک محدود رکھیں، لگتا ہے یہ کیس ای او بی آئی بنتا جارہا ہے جو ختم نہیں ہونا، ای او بی آئی کیس میں چھ چیف جسٹس گزارے تھے،

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ 8 رکنی بنچ نےقانون سازی پرحکم امتناع دے رکھا ہے، میں نے اپنے نوٹ میں آٹھ رکنی بنچ کے اسٹے آرڈرپراعتراض نہیں کیا میرا سوال صرف اتنا ہے کیا یہ کیس اسی بنچ کوسننا چاہیے یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے یہ نیٹ فلیکس سیزن تھری بن گیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس مقدمے کا 2022 کی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ کر دیتے ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023ء میں چھوٹی ترامیم ہوئی جیسا کہ مقدمہ منتقلی کے حوالے سے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں صرف بتائیں کہ 2022ء والی ترامیم میں کیا کیا شامل ہوا تاکہ کیس کو ختم کریں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023 والی ترامیم سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ترمیمی درخواست دائر نہیں کی، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ان کی درستگی کروا دوں گا عدالتی حکمنامے میں موجود ہے کہ میں نے 2023 والی ترامیم کا معاملہ اُٹھایا، عدالت نے مجھے متفرق درخواست دائر کر کے اور کاپی مخالف فریق کو دینے کا کہا اور یہ میں کر چُکا ہوں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم سے کچھ لوگون کو استثنی مل گیا، خواجہ حارث کہہ رہے ہیں کہ بے نامی کا تصور بدل دیا گیا ہے،مخدوم علی خان نے کہا کہ 200 سال پہلے برطانیہ میں سات سو جرائم پر سزائے موت تھی، قوانین میں ترامیم سے ان سزاوں کو نرم کیا گیا،جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بنیادی حقوق سے متعلق قانون ساز ترامیم کرسکتے ہیں، مخدوم علی کی جانب سے عدالت کے سامنے خلافت عثمانیہ اسلامی قوانین اور تاریخی کتب کے حوالے دئے گئے ،مخدوم علی خان نے کہا کہ ہاشم کمالی کی ایک کتاب کا حوالہ بھی پیش کروں گا ،جسٹس منصور شاہ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ کتاب سم شاپنگ سے خریدی یا کہیں سے منگوائی تھی ؟مخدوم علی خان نے کہا کہ برسوں پہلے میں نے یہ کتاب ایمازون سے منگوائی تھی ،جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ میں ایمازون پر اس کتاب کو ڈھونڈ لوں گا ،مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے قانون بھی سلطان بناتا تھا اور قاضی کی تعنیاتی بھی سلطان کرتا تھا اب ویسا سلطنت والا تصور موجود نہیں قانون ساز پر اعتبار کرنا چاہئے

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی ،نیب ترامیم کیس، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی تجویز دے دی

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز

 جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا

میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہوگا،چیف جسٹس

قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش

نیب ٹیم توشہ خانہ کی گھڑی کی تحقیقات کے لئے یو اے ای پہنچ گئی، 

وفاقی دارالحکومت میں ملزم عثمان مرزا کا نوجوان جوڑے پر بہیمانہ تشدد،لڑکی کے کپڑے بھی اتروا دیئے

بزدار کے حلقے میں فی میل نرسنگ سٹاف کو افسران کی جانب سے بستر گرم کی فرمائشیں،تہلکہ خیز انکشافات

10جولائی تک فیصلہ کرنا ہے،آپ کو 7 اور 8 جولائی کے دو دن دیئے جا رہے ہیں 

Comments are closed.