پی ٹی آئی دور میں نیب ترامیم کے بعد کرپشن الزام پر ریفرنسز کی واپسی ،نیب نے ریفرنسز سے متعلق تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019سے جون 2022 تک 50نیب ریفرنسز واپس ہوئے،راجہ پرویز اشرف کیخلاف 9 نیب ریفرنسز پی ٹی آئی دور میں واپس ہوئے ،یوسف رضا گیلانی کیخلاف پی ٹی آئی دور میں 2 نیب ریفرنسز واپس ہوئے،شوکت ترین کیخلاف پی ٹی آئی دور میں 2 نیب ریفرنسز واپس ہوئے شوکت ترین پر بطور شریک ملزم اختیارات کے غلط استعمال کا الزام تھا،جاوید حسین سابق رکن اسمبلی گلگت بلتستان کیخلاف نیب ریفرنس واپس ہوا، لیاقت علی جتوئی کیخلاف نیب ریفرنس بھی پی ٹی آئی دور میں واپس ہوا،مہتاب احمد خان کیخلاف نیب ریفرنس بھی پی ٹی آئی دور میں واپس ہوا،سابق وزیر صحت گلگت بلتستان گلبہار خان کیخلاف بھی نیب ریفرنس واپس ہوا، فرزانہ راجہ کیخلاف نیب کا بنایا گیا ریفرنس پی ٹی آئی دور میں واپس ہوا آصف زرداری کیخلاف نیب کا بنایا گیا ،ریفرنس پی ٹی آئی دور میں واپس ہوا،
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی ،سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر سزائے موت کے قانون کو ختم کر کے عمر قید کر دیا جائے تو کیا مجرمان کی سزا بدل جائے گی؟ وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے حدود آرڈیننس کے تحت ہونے والی سزاوں کی نوعیت تبدیل ہوئی تھی،حدود آرڈیننس کے تحت غیر انسانی سزاوں کا سلسلہ رکا،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم بنیادی حقوق کے سوا باقی آئینی شقوں سے متصادم ہونے پر کالعدم ہو سکتی ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی نیا قانون پہلے سے موجود آئینی شقوں سے متصادم ہو تو کالعدم ہو سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کسی قانون سازی کے پیچھے ممبران پارلیمنٹ کی نیت کا تعین کر سکتی ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی فیصلوں میں کہا گیا کہ کسی پر بدنیتی کا الزام لگانا سب سے آسان اور ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب ترامیم سے استفادہ ایک مخصوص طبقے نے حاصل کیا ہے؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ نیب ترامیم سب کیلئے ہیں، ان سے کسی مخصوص طبقے کو فائدہ نہیں پہنچا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ نیب ترامیم سے فائدہ ان ہی کو ہوا جو حکومت میں ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقننہ نے عدلیہ کو کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے وسیع اختیارات دے رکھے ہیں،
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے ختم یا متعلقہ فورم پر منتقل ہونے والے کیسز کی ایک بار پھر تفصیلات مانگ لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے کتنے کیسز کا فیصلہ ہوا اور کتنے واپس ہوئے تفصیلات جمع کرائیں،اس تاثر میں کتنی سچائی ہے کہ نیب ترامیم سے کوئی کیسز ختم یا غیر موثر ہوئے؟ اسپیشل نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نیب ترامیم سے کوئی نیب کیس ختم نہیں ہوا، نیب نے کسی کیس میں پراسیکیوشن ختم نہیں کی، کچھ نیب کیسز ترامیم کے بعد صرف متعلقہ فورمز پر منتقل ہوئے ہیں
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس
سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی
اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس
واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔