نفس، شیطان اور حضرتِ انسان تحریر : حلیمہ اعجاز ملک

0
60

اللّٰه نے دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا جب کہ انسان نے خود کو ظالم بنا کر ظلم کی انتہا کر دی
آج کے دور میں ایک انسان دوسرے انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس دشمنی میں دوسرے کا نقصان کرنا اپنا فرض سمجھنے لگے ہیں اس کی سب سے بڑی اور اکلوتی وجہ انسان کا نفس ہے

انسان بھول چکا ہے سب سے بڑا جہاد نفس کا جہاد ہے اور نفس کی کہے پر لبیک کر کے انسان ہر حد سے گِر رہا ہے

آج کا انسان کہتا ہے کہ انسان جانور سے بدتر ہے لیکن خود کو راہِ راست پر کوئی نہیں لاتا۔ دوسرے کے عیب گننے
میں سب ماہر ہیں لیکن خود کے عیب بھول جاتے ہیں

نفس کی غلامی اور نفرت کے اندھیرے سے نکل کر اجالے
میں قدم رکھیں
کیونکہ
’’غلامی میں جسم تو رہتا ہے مگر اس سے روح خالی ہو جاتی ہے اور جس جسمِ میں روح نہ ہو اس سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ دل سے ذوقِ ایجاد و ترقی رخصت ہو جاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اپنے آپ سے غافل ہو جاتاہے۔ جبرائیل اگر (نفس کی) غلامی اختیار کر لے تو اسے آسمان کی بلندیوں سے نیچے گرادیا جائے۔ اسی طرح ایک غلام تقلید پرست اور بت گر ہوتا ہے اس کے نزدیک ہر جدید یا نئی بات کفر ہوتی ہے‘‘

غور کریں کہ تاجر اپنے کاروبار پر بیٹھا تسبیح کیے جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ ناقص مال کی فروخت بھی جاری ہے۔ یہی حال ہمارے علمائے کرام کا بھی ہے کہ علماء لوگوں کو تو واعظ و نصیحت کرتے ہیں لیکن اپنے آپ کو اور اپنے باطن کو نصیحت نہ کر سکے۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جو کسی بھی کاروبارِ زندگی سے وابستہ ہے وہ ایسی ہی مثال پیش کر رہا ہے۔ ہم ان رذائل سے کیونکر چھٹکارا نہ پا سکے؟ اس لیے کہ ذکر و تسبیح جس نے کرنی ہے (یعنی قلب) اس تک بات نہیں پہنچی تو اصلاح کیسے نصیب ہو گی

انسان کے پیدا ہوتے ہی اسے اللّٰه کا نام سکھا دیا جاتا ہے۔ اللّٰه کے نام کو سن سن کر انسان جان تو جاتا ہے کہ اللّٰه مالک ہے رازق ہے وغیرہ لیکن اس کی پہچان نہیں آتی۔ پہچان تب ہی آتی ہے جب اس قلب میں اللّٰه کےذکر کا نور کسی کامل و مکمل شیخ و رہبر کے قلب کے وسیلے سے داخل ہوتا ہے۔ یہی نور اس کو اپنے مالک کی اصل پہچان نصیب کرتی ہے اور اسے اپنے رب کا شکر گزار بندہ بناتی ہے۔ اسی نور سے "تصدیق بالقلب” میسر آتی ہے اور حقیقتِ ایمان اسی کا دوسرا نام ہے

جب تک یہ ذکر کا نور قلب کو میسر نہیں آتا اس وقت تک صورتِ ایمان ہے۔ نماز تو پڑھ لیتا ہے لیکن وہ محض صورتِ نماز ہی ہوتی ہے یہی ذکر کا نور میسر نہ ہونے کے باعث رمضان المبارک میں محض بھوک پیاس کاٹتا ہے اور اعمالِ بد سے نہیں بچ پاتا۔ جس کسی کو یہ ذکر کا نور میسر آتا ہے تو وہ حقیقت میں حاصلِ رمضان و ایمان یعنی "لعلکم تتقون” کا نمونہ بنتا ہے

آپ کے وجود نے ایک دن دنیا سے ختم ہو جانا ہے باقی رہے گا تو صرف ذکر. اب اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم نیک ذکر یا برے ذکر میں یاد ہونا ہے ہر بات کا انحصار ہمارے خود کے اوپر ہے
اس لیے اپنے ضمیر کو جگائیں اور خود کو بدلیں دنیا آپ کو دیکھ کر بھی بدل سکتی ہے

"نفس کی غلامی سے موت اچھی”

@H___Malik

Leave a reply