پاکستان میں نوجوان وکلا کے لیے پیشہ ورانہ چیلنجز .تحریر:صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
پاکستان میں وکالت کا شعبہ ہمیشہ سے ایک عزت اور فخر کا ذریعہ رہا ہے، لیکن نئے وکلا کے لیے اس شعبے میں اپنی جگہ بنانا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان وکیل جو اس شعبے میں حال ہی میں قدم رکھتے ہیں، انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کی جڑیں نہ صرف پیشہ ورانہ مشکلات میں بلکہ پاکستان کے معاشی اور سماجی نظام میں بھی موجود ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں وسائل کی کمی اور معاشی حالات پیچیدہ ہیں، نوجوان وکلا کے لیے اپنی جگہ بنانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ یہاں سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی اشرافیہ کی موجودگی میں، جو وسائل کے مکمل قابض ہیں، نئے آنے والے وکلا کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔پاکستان میں وکالت کا شعبہ اکثر ایک مخصوص طبقے کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر وہ نوجوان جو وکیل خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر کسی نوجوان کا والد، دادا یا چچا وکیل نہ ہو، تو اس کے لیے وکالت کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ اس کے باوجود، اگر وہ نوجوان محنت اور لگن سے اس شعبے میں آنا چاہے تو اسے کئی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو، کارپوریٹ سیکٹر میں اگر ہم دیکھیں تو اکثر کمپنیوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قانونی معاملات کے لیے کسی وکیل کو بطور مشیر رکھیں، لیکن دوسری طرف، وہ وکلا جو سیاسی تعلقات رکھتے ہیں، انہیں کئی کمپنیوں کی قانونی مشاورت کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان میں نئے وکلا کے لیے سیکھنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ ایک نوجوان وکیل کو ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد کسی تجربہ کار وکیل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ عملی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو آزما سکے۔ تاہم، اکثر سینئر وکلا کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ نئے وکلا کو مکمل تربیت دے سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے سینئر وکلا پہلے ہی اپنی پریکٹس میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے پاس نئے وکلا کو سکھانے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اکثر نوجوان وکلا کو اپنی جگہ بنانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔پاکستان میں وکلا کی سیاست بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ نئے وکلا جو بار کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتے، انہیں اپنی جگہ بنانے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وکلا کی سیاست میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نوجوان وکلا کے لیے یہ رقم سیاست میں حصہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے وکلا کی سیاست میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو پہلے سے مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے نوجوان وکلاء اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ وکالت کا پیشہ صرف قانون کا علم رکھنے کا نہیں بلکہ اس میں اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔ وکلا کے پیشے میں بے شمار چیلنجز ہوتے ہیں جن میں سے ایک بڑی چیلنج پیشہ ورانہ ساکھ کا ہے۔ بہت سے وکلا فیس کا معاملہ، کیسز کی مقدار اور دیگر مالی معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیشہ ورانہ معیار میں کمی آتی ہے۔اگرچہ پاکستان میں نوجوان وکلا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود اس شعبے میں کامیابی کے لیے کئی مواقع بھی موجود ہیں۔ ان مواقع کا فائدہ اٹھا کر نوجوان وکیل اپنے لیے ایک کامیاب مستقبل بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں جہاں پہلے سے بڑی وکیل برادری موجود ہے، وہاں نوجوان وکلا کے لیے مقابلہ بہت سخت ہے۔ لیکن دیہاتی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں ابھی تک وکالت کے شعبے میں اتنی ترقی نہیں ہوئی۔ ایسے علاقوں میں نوجوان وکلا کے لیے اپنی جگہ بنانا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، دیہاتی علاقوں میں عدالتیں بھی کم ہیں اور وہاں کی عوام کو قانونی مدد کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، جس سے نوجوان وکلا کو کام کے مواقع ملتے ہیں۔دنیا بھر میں وکالت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں بھی یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ نوجوان وکلا آن لائن وکالت کے ذریعے اپنے کیسز کو موثر انداز میں حل کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر وکالت کی خدمات فراہم کرنے کے ذریعے نئے وکلا اپنے آپ کو مارکیٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن بار کونسل کی طرف سے پابندی کے وکیل اپنی مارکیٹ نہیں کر سکتا جب کہ ہورپ امریکہ میں ایسا نہیں ہے۔
پاکستان میں نئے وکلا کو مزید سہولت دینے کے لیے حکومت یا مختلف وکلا کی تنظیمیں اسکالرشپ اور تربیتی پروگرامز فراہم کر سکتی ہیں۔ یہ پروگرامز نہ صرف مالی مدد فراہم کرسکتی ہیں بلکہ نئے وکلا کو تربیت دینے کا بھی موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ نوجوان وکلا اگر ان پروگرامز کا حصہ بنیں، تو ان کے لیے سیکھنے اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع مل سکتا ہے۔اس حوالے سے پنجاب بار کونسل نے ٹریننگ پروگرام شروع کیا جو کہ خوش آ ئندہے۔پاکستان میں نوجوان وکلا کے مسائل کا حل ممکن ہے، لیکن اس کے لیے چند اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ نوجوان وکلا کے لیے انٹرنشپ پروگرامز کا آغاز کیا جانا چاہیے تاکہ وہ عملی میدان میں کام کرنے کا تجربہ حاصل کر سکیں۔ جیسے ہی کوئی نوجوان وکیل وکالت کے پیشے میں قدم رکھتا ہے، اس کو ایک ماہانہ سکالرشپ دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے مالی مسائل سے نمٹ سکے اور اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنا سکے۔نوجوان وکلا کو اخلاقی اصولوں کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے پیشے میں صرف قانونی علم پر ہی انحصار نہ کریں بلکہ اپنے کام میں ایمانداری اور پیشہ ورانہ ساکھ کو بھی برقرار رکھیں۔وکلا کی سیاست میں روپے کے استعمال اور سیاسی تعلقات کی بجائے پیشہ ورانہ معیار کو اہمیت دی جانی چاہیے تاکہ صرف اہل وکلا کو ہی اہمیت ملے۔
پاکستان میں نوجوان وکلا کے لیے پیشہ ورانہ چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں۔ اگر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، تو یہ نوجوان وکلا نہ صرف اپنے لیے کامیاب کیریئر بنا سکتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں انصاف کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوان وکلا کو صرف قانونی علم ہی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ اخلاقی تربیت اور مالی مدد کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اس شعبے میں اپنی جگہ بنا سکیں اور اپنے خاندانوں اور ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکیں۔