پاکستانی معاشرے میں زومبیز نما مخلوق کی بڑھتی ہوئی تعداد — محمد سجاد عبداللہ

0
33

ویسے تو تمام آسمانی مذاہب میں زومبیز جیسا کوئی کردار نہیں ہے، یہ صرف ہالی ووڈ موویز میں ڈیفائن کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کی کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں زومبیز نما مخلوق کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ہالی ووڈ موویز میں زومبیز ایسے مردہ انسان ہوتے ہیں جو کسی کو کاٹ کھائیں تو وہ بھی زومبی بن جاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایک نئی طرح کے زومبی نیس کا شکار ہوگیا ہے۔ایسے کردار جو غلط یا غیر موجود کیرئیر کونسلنگ کی وجہ سے معاشرے کے کسی خاص شعبے میں ، اپنی مرضی کے بغیر ، شامل ہوجاتے ہیں ، وہ آہستہ آہستہ معاشرے کے دوسرے افراد میں بھی اپنی طرح بیزاری اور مایوسی بھرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

کیا کسی ایسے سٹوڈنٹ کو کوئی ایسا مضمون زبردستی پڑھایا جاسکتا ہے جس میں اس کی دل چسپی ہی نہ ہو؟؟

مثلا اسلامی مدرسوں میں بچوں ان کی عدم دل چسپی کے باوجودان کو مار پیٹ کراگر ہم ان کو عالم دین یا حافظ قرآن بنا بھی دیں اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے سٹوڈنٹس ہوں جو صرف اپنی ذاتی دل چسپی اور شوق کی وجہ سے حافظ قرآن یا عالم دین بنیں تو کورس مکمل ہونے کی بعد کی زندگی میں پہلے والے سٹوڈنٹس زیادہ کامیاب ہوں گے یا دوسرے والے؟ معاشرے کو زیادہ بہتر اور دل جمعی کے ساتھ خدمات مہیا کرنے میں پہلے والے سٹوڈنٹس زیادہ کامیاب ہوں گے یا دوسرے والے؟ معاشرے میں بہتری، تازگی اور برداشت پہلے والے سٹوڈنٹس کی وجہ سے آئے گی یا دوسرے والے؟

یہی کہانی باقی تمام دنیاوی مضامین میں اپلائی ہوتی ہے۔ جس بچے کو بائیو سمجھ ہی نہیں آتی، اس کو آپ ایک اچھا ڈاکٹر کیسے بنا سکتے ہیں۔ ہر بچے کی دل چسپیاں مختلف ہوتی ہیں۔ ہم ٹیچرز کے پاس ہر کلاس میں تقریبا 90%سٹوڈنٹس ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنی مرضی کی بجائے کسی اور مثلا ماں باپ، ماموں، چاچو یا دوستوں کے کہنے کی وجہ یہ مضمون منتخب کرتے ہیں اور پھر اگر کسی طریقے سے رٹا لگا کے، ذہنی اذیت برداشت کرکے یہ مضمون پاس کربھی جائیں تو اول نمبر اتنے اچھے نہیں آتے، یا نمبر اچھے آجائیں تو اس مضمون میں اپنی عدم دل چسپی کی بنا پر معاشرے کو اپنا سو فیصد کنٹری بیوشن نہیں دے سکتے۔

ایک اور مثال اپنے مضمون سے دینا چاہتا ہوں کہ ایم سی ایس یا بی ایس کمپیوٹر سائنسز کرنے والے اکثر سٹوڈنٹس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کو پروگرامنگ کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے ایک لائن بھی کوڈ نہیں کرسکتے۔ اب ایک ماسٹرز ڈگری والا پروگرامنگ کی ایک لائن بھی نہیں لکھ سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کو کمپیوٹر سائنس پروگرام میں جو ایڈمشن دیا تھا وہ ایڈمشن غلط تھا۔اور ایسے سٹوڈنٹس جب ڈگری مکمل کرنے کے بعد حقیقی دنیا میں واپس آئیں گے۔ تو اچھی آمدن نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بیزاری، عدم برداشت اور تعلیم سے دوری جیسے عناصر کو فروغ دیں گے۔

حقیقتا ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے۔ویسے تو ایسے سٹوڈنٹس کا ڈگری میں کامیاب ہونا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہماری یونیورسٹیز میں سے اکثریت علم کی دریافت اور ایجاد کی بجائے چھاپہ خانے کی سروسز مہیا کررہی ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اچھی آمدن کیلئے ڈگری ضروری نہیں ہوتی ۔ یہ علیحدہ قابل مباحثہ موضوعات ہیں۔

ہمیں میٹرک کے بعد سے ہی اس مسئلے پر توجہ دینی پڑی گی۔ کیرئیر کونسلنگ کے شعبے کی کالج لیول پر اشد ضرورت ہے۔ ہر بچے سے اس کے پسندیدہ مضمون کے بارے میں پوچھا جائے، جو اس کو سمجھنے میں آسان لگتا ہے۔ یا بالفرض اس کو کسی ایسے پروگرام میں ایڈمشن مل بھی جاتا ہے جو وہ فالو نہیں کرسکتا تو ایک یا دو ماہ کے اندر اپنا پروگرام تبدیل کرلے اور کسی ایسے پروگرام میں داخلہ لے لے، جس میں اس کو دل چسپی ہے۔

ہمیں مزید پروگرامز متعارف کروانے ہوں گے، جس میں ٹیکنیکل پروگرامز کی کثیر تعداد شامل ہو۔ کیوں کہ سٹوڈنٹس کی اکثریت روایتی تعلیمی پروگرامز میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ ہمیں میرٹ بیسڈ ایڈمشنز کو فروغ دینا ہوگا۔ کمپیوٹر سائنس پروگرام میں اس کو ایڈمشن دیں، جس کی ریاضی اچھی ہو۔ جو کوڈنگ کرسکتا ہےورنہ اس کے کمپیوٹر سائنس پڑھنے سے نہ اس کو کوئی فائدہ اور نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ۔ بلکہ اس کے پروگرام کو جوائن کرنے سے الٹا ریسورسز کا ضیاع ہی ہوگا۔

کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کے تعلیمی پروگرام میں دل چسپی نہیں لیتے ۔ ان کیلئے سپورٹس پروگرام اور انٹرن شپ بیسڈ پروگرامز متعارف کروائے جاسکتے ہیں۔ جس میں مارکیٹ میں ہونے والے بہت سارے کاروبار میں ان کی مہارت ڈیویلپ کی جاسکتی ہے۔

Leave a reply