لاہور ہائیکورٹ ،پیمرا کی جانب سے عدالتی کارروائی کی کوریج پر پابندی کے اقدام کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی
عدالت نے دونوں درخواستوں پر پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب 29مئی کو طلب کرلیا ،عدالت نے وکلا کی جانب سے پیمرا نوٹیفکیشن پر عملدرآمد معطل کرتے کی استدعا سے اتفاق نہ کیا ،عدالت نے وکلا کو درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت کر دی ،عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت کے لیے طلب کر لیا ، جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ عدالت کیس کے دائرہ اختیار کا بھی تعین کرے گی،درخواستوں میں اہم قانونی نکات اٹھائے گیے ہیں،پیمرا کے وکیل عارف رانجھا نے درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ درخواستیں قابل سماعت نہ ہیں،اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے
ہادی النظر میں پیمرا نوٹیفکیشن میں ابہام ہے،جسٹس عابد عزیز
جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ قانون کے تحت پیمرا غلط رپورٹنگ پر لائسنس معطل یا کینسل کر سکتا ہے ،ہادی النظر میں پیمرا نوٹیفکیشن میں ابہام ہے،آپ کہنا چاہ رہے ہیں اگر پیمرا کے پاس کوئی پروسیڈنگ زیر سماعت ہو تو اس پر براہ راست عدالت نہیں آیا جاسکتا ۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پیمرا قانون کے تحت چینلز کے لیے کوڈ آف کنڈیک موجود ہے ،اگر پیمرا قانون کے تحت خلاف کوڈ اف کنڈیک کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو معاملہ عدالت لے جایا جا سکتا ہے ،کرنٹ افیر پروگراموں میں چینل پیمرا کو یقین دہائی کراتا ہے ،زیر سماعت کیسوں کو چینلز زیر بحث نہیں لاتے،پیمرا نے نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی کارروائی ،ٹکرز، ہیڈ لائن چلانے پر پابندی لگا دی ہے ،کورٹ رپورٹر ٹریننگ کے بعد رپورٹنگ کرتے ہیں،پیمرا کوڈ اف کنڈیک کے تحت کورٹ رپورٹنگ کی اجازت ہےپیمرا کوڈ اف کنڈیکٹ کے تحت عدالتی کارروائی ۔ہیڈ لائن اور ٹکرز کی اجازت ہے،ٹکرز اور ہیڈ لائن عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوتے ،اگر کسی عدالتی کارروائی کی حکم عدولی ہو بھی جائے تو پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹ میں معاملہ جائے گا،یا عدالت خود معاملہ کا نوٹس لے گی اور توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکتی ہے ،آریٹکل 19.19اے کے تحت آزادی صحافت پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی،پیمرا مناسب قدغن یا پابندیاں لگا سکتا ہے،کورٹ رپورٹرز فیر رپورٹنگ کرتے ہیں،پاکستان کے شہری عدالتی کارروائی جاننا چاہتے ہیں ،ہر شہری عدالت نہیں آسکتا ، جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ دیکھنا ہے پیمرا کا کوڈ اف کنڈیکٹ قانون کے زمرے میں آئے گا؟ دیکھنا ہے کیا کوڈ اف کنڈیکٹ کے تحت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں
دیکھنا ہے یہ نوٹیفکیشن قانون کے تحت ہوا ،کیا یہ قانون بنوا دیں کہ صرف خلاف ورزی پر کاروائی ہوگی
عدالتی کارروائی کی نشریات کیخلاف پیمرا کے نوٹیفکیشن پر لاہور ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کر دی گئی ہے،لاہور ہائیکورٹ میں درخواست شہری مشکور حسین نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کی وساطت سے دائر کی، لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں پیمرا، وزارت اطلاعات و نشریات اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے،لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آزاد صحافت جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، آزاد صحافت کے بغیر جمہوریت ختم ہو جائے گی، موجودہ حکومت ایسی حکومت کی بہترین مثال ہے جو کالے قوانین کے ذریعے مخالف آوازوں کو دباتی ہے، 21 مئی کو پیمرا نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ٹی وی چینلز کو ہدایت جاری کی کہ وہ عدالتی کارروائی کو نشر نہیں کریں گے، پیمرا نے اپنے نوٹیفکیشن کے ذریعے ٹی وی چینلز کو عدالتی کارروائی کی نشریات سے روک دیا ہے، نوٹیفکیشن کے مطابق ٹی وی چینلز محض عدالت کے تحریری فیصلے نشر کر سکتے ہیں،سپریم کورٹ کے جس فیصلے کی بنا پر پیمرا نے نشریات پر پابندی عائد کی ہے وہ فیصلہ نشریات کی اجازت دیتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہیں بھی موجود نہیں کہ عدالتی کارروائی کی نشریات نہیں کی جا سکتی، پیمرا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے۔
قبل ازیں گزشتہ روز پیمرا کی جانب سے عدالتی کارروائی کی نشریات پر پابندی کا نوٹیفکیشن لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ثمرہ ملک ایڈووکیٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں پیمرا کا 21 مئی نوٹیفکیشن چیلنج کیا جبکہ درخواست میں پیمرا، وفاقی حکومت اور سیکرٹری انفارمیشن کو فریق بنایا گیا۔درخواست گزار نے کہا کہ پیمرا کا 21 مئی کو جاری کردہ نوٹیفکیشن غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت پیمرا کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلہ تک نوٹیفکیشن معطل کرے۔
وفاقی حکومت نے ٹی وی چینلز کو عدلیہ سے متعلق توہین آمیز مواد اور بیان نشر کرنے سے روک دیا
دوسری جانب وفاقی حکومت نے ٹی وی چینلز کو عدلیہ سے متعلق توہین آمیز مواد اور بیان نشر کرنے سے روک دیا، اس حوالے سے حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ،پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے جاری نوٹیفکیشن میں سپریم کورٹ کےحکم کا حوالہ دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ کوئی بھی ایسا مواد یا بیان جس سے یا جس میں عدلیہ کی توہین کی گئی ہو اس توہین آمیز مواد کو نشر یا شائع کرنے والے بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ عدلیہ سے متعلق توہین آمیز مواد نشر، شائع کرنے کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی.
شہباز شریف خود ہی اسمبلی میں مان گئے کہ انہیں اپوزیش لیڈر چن لیا گیا،یاسمین راشد
مہارانی کو پتہ ہی نہیں ملک میں غربت کتنی ہے،یاسمین راشد
صدارتی انتخابات،آصف زرداری کے کاغذات منظور،محمود اچکزئی پر اعتراض عائد
پیپلز پارٹی وزیراعظم کے میثاق برائے قومی مفاہمت کے تصور کی حمایت کرتی ہے،بلاول
سی ڈی اے کو شہتوت کے درخت کاٹنے کی اجازت
عورت مارچ رکوانے کیلئے دائر درخواست خارج
صدارتی امیدوار محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپہ،ترجمان، خالی پلاٹ پر قبضہ واگزار کروایا،انتظامیہ