پنجاب سے سوات تک ،حصہ چہارم، تحریر:ارم شہزادی

0
37

صبح 19 جولائی کو ہم آخری پڑاؤ مالم جبہ کی طرف چلے۔ مالم جبہ جانے کی خواہش تو بہت پہلے سے تھی جب لگتا تھا کہ یہاں پہاڑ آسمان سے چند فٹ کے فاصلے پر ہیں۔ موڑ انتہائی خطرناک لیکن روڈ صاف اور خوبصورت تھے۔ وہاں تو ٹھنڈک کا احساس ہی نیا تھا۔ وہاں رہائش عام طور پر گھر جیسے بنے ہوٹلوں کی تھی۔ ہر جگہ نئے ہوٹل بننا اس بات کی غمازی تھی کہ ماحول اچھا اور فضا پرسکون ہے۔ جبکہ سیاحت کے لیے بہترین ہے۔ ہمارا مسلہ یہ تھا کہ جتنی تعداد میں گئے تھے عام طور ہمیں پورا پورشن لینا پڑتا تھا جس میں چار سے پانچ کمرے ہوتے تھے۔ یہاں پہنچ کے دکھ ہوا کہ پہلے کیوں نا آئے یا ایک دن اور مل جاتا جو یہاں مزید رہتے۔ مالم جبہ کالام کی نسبت زیادہ ڈیویلپ تھا۔ چیئر لفٹ سے لے کرپی سی تک موجود تھا۔ چیئر لفٹ اور کیبل کار بہت خوبصورت اور نئی تھی۔ ماحول بھی ٹھیک تھا مقامی پولیس کے علاوہ فوجی جوان بھی دیکھے۔ جو کہ کسی بھی ناگہانی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چاک و چوبند تھے۔ چیئر لفٹ سے فارغ ہونے کے بعد واپس آئے تو دوبارہ تیاری پکڑ لی پی سی جانے کی۔ پی سی یعنی پاک کانٹینینٹل جس میں جا کر حیران ہوئے کہ تمام تر سہولیات سے مزین تھے وہ تمام سہولیات جو میدانی علاقے میں پائے جانے والے پی سی اور بھوربن میں پایا جانے والا پی سی ہے۔ حیرت ہوئی کہ اتنی سہولیات دی گئیں لیکن مقامی ابادی کے پاس ہیلتھ اور سکول کی اتنی بہتر سہولیات نہیں تھیں۔ مقامی لوگوں کے پاس صحت کے مراکز اس طرح ڈیویلپ نہیں تھے جتنے وہاں ہوٹلز اور سیاحتی چیزیں تھیں۔ تھوڑا مقامی ابادی دیکھ کر دکھ ہوا۔ لیکن جگہ اور سیاحوں کے لیے انتظامات مزید بہتر کیے جارہے ہیں۔ ان انتظامات میں اگر مقامی ابادی کی بہتری کے لیے بھی کچھ تجاویز شامل کر لی جائیں تو بہترین ہو جائے گا۔ پی سی سےواپسی پے جب ہوٹل پہنچے تو ٹھنڈک بہت بڑھ چکی تھی۔ لگتا تھا شایدجنوری کا مہینہ ہو۔ وہاں صحیح معنوں ميں میں سکون سے سوئی۔ صبح کا منظر اس قدر خوبصورت اور دلنشین تھا کہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جب صاف شفاف سبز پہاڑوں کی وسط سے بادل اڑ رہے تھے اس منظر کو صرف کیمرہ میں نہیں بلکہ دل کے کیمرہ مین محفوظ کیا۔ وہ بادل اڑتے اڑتے ہم تک آئے یہاں تک کہ دھند کی شکل میں ہمارے چاروں طرف پھیل گئے ہم سب بلکل بچوں کی طرح خوش ہورہے تھے۔ اور بچے تھے کہ واپس آنے سے ہی انکاری تھی۔ ہر بچے کی زبان پرایک ہی بات تھی کہ "ہم پنجاب نہیں جائیں گے” یہی حال بڑوں کا بھی تھا۔ اگر اگلے ہی دن بکرا عید نا ہوتی تو یقیناً ہم ایک رات اور رہتے وہاں اس ٹھنڈ کو بادلوں کو مزید انجوائے کرتے۔ مالم جبہ سے واپسی بہت برے دل سے ہوئی ایک تو وہ منظر چھوڑنے کو دل نہیں تھا دوسرا پنجاب کی گرمی یاد آرہی تھی۔ پر کیا کرتے واپس تو آنا ہی تھا ہم بھی آئے بہت خوبصورت یادیں سمیٹ کر بہت سارا پیار سمیٹ کر اور دوبارہ جانے کی خواہش کے ساتھ۔ ان شاء الله دوبارہ موقع ملا تو ضرور جائیں گے۔ آپ سب بھی سوات اور اس سے اگے جائیں کافی بہتر سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ آپ لوگ جائیں گے تو وہاں کے لوگوں کا اعتماد بڑھےگا پھر اس سے بھی بہتر طریقے سے وہ کام کریں گے۔ کیونکہ انکا روزگار بھی تو سیاحوں کا مرہون منت ہے۔کچھ باتیں ہیں جن پر حکومت اگر نظرثانی کرے۔۔

جس طرح ما شاء الله وہاں آمن آیا ہے لوگوں کی روزمرہ زندگی میں تبدیلی آئی ہے جو کہ افواج پاکستان اور مقامی لوگوں کے تعاون سے ہے۔ انکی قربانیوں کی وجہ سے ہے اگر مزید پرامن جگہ بنانا ہے تو فوجی چیک پوسٹس بنائی جائیں جو مستقل بنیادوں پر ہوں انکے ساتھ وہاں کے مقامی نوجوانوں کو شامل کیا جائے
جسطرح سکول، کالج، یونیورسٹی سوات میں دیکھی میڈیکل کالج دیکھے انکا دائرہ کار کالام مالم جبہ تک بڑھایا جائے انکو مکمل سکیورٹی دی جائے
ہیلتھ کارڈ کی جس طرح سہولت دی ہے اسی طرح ہیلتھ کیئر سینٹر جگہ جگہ بنائے جائیں تاکہ علاج کے لیے مشکل نا ہو۔

پرائمری اسکول کا دائرہ بڑھایا جائے چونکہ پہاڑی علاقے ہیں بچوں کے لیے زیادہ سفر نقصان دہ بھی ہوسکتاہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن کروائی جائے۔ کیونکہ جو گاڑی پنجاب میں پچیس تیس لاکھ کی وہاں بامشکل دو سے چار لاکھ کی ہے۔ نمبر پلیٹس کے بغیر۔ وہاں سے گاڑی لی نہیں جاسکتی کیونکہ پنجاب میں داخل ہوتے ہی ضبط کر لی جانی ہے۔ تو وہاں بھی اسکوقانون کے دائرے میں لایا جائے۔ جسطرح مری سے لے کر ایبٹ آباد تک اور ناران کاغان تک ہوٹل اور معیاری جگہیں بنائی گئی ہیں یہاں نا صرف بنائی جائیں بلکہ انکی تشہیر بھی کی جائے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے وزراء یہاں آئیں اور اسے پروموٹ کریں تاکہ پاکستان کی خوبصورتی دنیا دیکھے۔ اور یہ جان سکے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے سیاحت کے حوالے سے اور دشمن کا پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔ جزاک الله
دعا گو ارم رائے

Leave a reply