قبرستان میں سونے والی خاتون اور ہمارا معاشرہ تحریر : عروج منطور

0
42

میں پولیس اسٹیشن میں تھا ۔ وہاں کا تھانیدار میرا دوست ہے ۔ باتیں کرتے کرتے وہ اپنا کام بھی نمٹا رہا تھا ، وہاں آئی ایک سائل خاتون کی بات سن کر میں چونک گیا ۔وہ کہہ رہی تھیں میں ہر رات قبر میں لیٹ کر سوتی ہوں ۔
میں نے ان سے کہا اس بات کا کیا مطلب ہے ؟ معلوم ہوا خاتون کے شوہر وفات پا چکے ہیں ۔ وہ گھر میں تنہا ہوتی ہیں ۔ کہنے لگیں قبر اور کمرے میں فرق ہی کیا ہے ، چاروں طرف دیواریں اور اوپر چھت ۔ لائٹ بند کر کے میں باقاعدہ نیت کرتی ہوں کہ مر گئی تو یہی میری قبر ہے ،24 گھنٹے تسبیح ہی کرتی رہتی ہوں ۔ اس کہانی میں میری دلچسپی مزید بڑھ گئی
ان خاتون کو یقین تھا کہ ان کے رشتہ دار انہیں قتل کر کے ان کے مکان پر قبضہ کر لیں گے ۔ خاتون چاہتی تھی کہ وہ مر جائے تو اسی مکان کو اس کی قبر ڈکلیئر کر دیا جائے ۔ اپنی ذات میں ولی ہونے کے زعم کے ساتھ ساتھ ان کا حسد اور انتقام اس سطح پر تھا کہ وہ مرنے کے بعد بھی کسی کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتی تھیں ۔
خاتون کے بچے بیرون ملک تھے اور واپس آنے کو تیار نہیں تھے۔خاتون مکان چھوڑ کر بچوں کے پاس جانے پر آمادہ نہیں تھیں ۔انہیں ڈر تھا کہ وہ گئیں تو مکان پر قبضہ ہو جائے گا ۔ وہ یہ مکان بیچنے پر بھی آمادہ نہیں تھیں۔ تھانیدار نے ان کے رشتے داروں کو بھی بلا لیا ۔انہوں نے کہا کہ خاتون کے وہم کا علاج کچھ نہیں ۔دو ماہ پہلے تک خاتون کے تمام اخراجات ہم اٹھاتے تھے ،اب بھی راشن پانی کا بندوبست کرتے ہیں کیونکہ خاتون کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ،ہمارے بھائی کی بیوہ ہے ۔ پہلے یہ مکان خاندانی جائیداد میں تھا ،ہم نے ہی حصے کر کے خاتون کے نام یہ مکان کروایا تھا ۔ جیسے ہی مکان خاتون کے نام ہوا انہیں وہم ہو گیا کہ اس مکان پر یہ رشتے دار قبضہ کر لیں گے اور انہیں قتل کر دیں گے۔
ان کے دیور بڑی سے بڑی قسم اور گارنٹی دینے کو تیار تھے، ان کے اپنے ذاتی گھر اور کاروبار تھے لیکن خاتون کا اصرار تھا کہ انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوا تو پرچہ ان کے دیوروں کے خلاف کاٹا جائے اور ان کے گھر کو قبر ڈکلیئر کیا جائے ۔
وہ اپنے ممکنہ قتل کی ایڈوانس درخواست اور وصیت لکھ کر لائی تھیں۔ یہ ایسی درخواست تھی جو قتل ہونے والا ایڈوانس میں اپنے دستخط کے ساتھ تھانے جمع کروا رہا تھا اور فوری پرچہ دینا چاہتا تھا
یہ کہانی صرف اس خاتون کی نہیں ہے ۔ ہم میں سے اکثر نفسیاتی طور پر ایسے ہی ہو چکے ہیں ۔ ہمیں لگتا ہے ہماری چھوٹی سی خوشی سے بھی باقی سب جل جاتے ہیں ، حسد کرتے ہیں اور ہمارے خلاف انتقامی باتیں کرتے ہیں ۔ کوئی روٹین میں معمول کی بات کرے تو ہمیں لگتا ہے ضرور یہ اشارہ ہماری جانب ہے ۔
یہ رویہ ہمیں آہستہ آہستہ نفسیاتی مریض بنا رہا ہے ،ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارے سمیت 21 کروڑ لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں
آگہی کے ایک خاص لمحے اس درویش کو ادراک ہوا تھا ۔اس دنیا میں اہم اب کوئی بھی نہیں رہا ۔کسی کے چلے جانے سے نہ تو دنیا کا کاروبار رکتا ہے اور نہ کسی دفتر کا نظام ٹھہرتا ہے ۔یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور ہر سیر کو سوا سیر میسر ہے ۔
کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ دوسرے کی خوشی سے جلے اور اگر کوئی حسد کرتا بھی ہے تو اس پر توجہ دینا بےوقوفی اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے خوش رہنے کا راز پایا ۔ میں نے لوگوں کی پروا کرنی چھوڑ دی ۔ میں نے خود کو یقین دلایا کہ اس دنیا کے لیے میں اتنا اہم نہیں ہو سکتا کہ کوئی اپنے کام چھوڑ کر مجھ سے حسد کرے گا یا میری خوشیوں سے جلے گا ۔ اگر ایسا محسوس بھی ہو تو میں اسے نظر انداز کرکے مسکراتا ہوا گزر جاتا ہوں ۔میں اب ایسی ٹینشن پالنے کا قائل نہیں جس کا انجام کچھ نہ ہو ۔
آپ اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھرپور انداز میں لطف کشید کیجیے ۔ لمحہ موجود میں خوش رہنے کا ہنر سیکھیں ۔ اپنی خوشیوں کے لمحے یہ سوچ کر برباد نہ ہونے دیں کہ کون کون جل رہا ہو گا اور کس کس کو جواب دینا ہے ۔
یاد رکھیں ایک ہی کام کچھ لوگوں کے نزدیک درست ہو گا اور کچھ کے نزدیک غلط ہو گا ۔آپ سب کو خوش نہیں رکھ سکتے ۔آپ نے صرف اپنے ضمیر کو خوش رکھنا ہے ، کیا درست ہے اور کیا غلط یہ اپنے ضمیر سے پوچھیں اور پھر ثابت قدم رہیں ۔
اپنی نجی خوشیوں کو دکھاوے میں بدلنے کی بجائے اپنی یادوں کا حصہ بنائیں ۔ تصاویر ضرور بنائیں لیکن اتنی نہیں کہ اپنی آنکھ کو براہ راست نظارے سے محروم کر کے وہی منظر لینز سے دیکھتے رہیں ۔
یقین مانیں زندگی بہت خوبصورت ہے ،محبت کرنے والوں کے لیے تو بہت ہی خوبصورت ہے لیکن یہ خوبصورتی اس وقت اذیت میں بدل جاتی ہے کب آپ اپنے آپ کو نیشنل ہیرو سمجھنے لگتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی خوشی سے باقی سب کو جلن ہو رہی ہے آپ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس جلن کا جواب سوچنے لگتے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت وہ خاص لمحہ آپ کی مٹھی سے پھسل جاتا ہے جو آپ کے لیے باعث تسکین ہونا تھا

Twitter ID: @AroojKhan786

Leave a reply