آخر یہ القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا؟

آخر یہ القادر ٹرسٹ کیس ہے کیا؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب کی درخواست پر القادر ٹریسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا ۔ اس گرفتاری کے بعد ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ آخر القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق ملک کے معروف بزنس ٹائیکون نے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے جہلم میں 458کنال 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے بزنس ٹائیکون کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔

گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019ء کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں بزنس ٹائیکون کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم این سی اے کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔

عمران خان نے چار سال قبل ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔
2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے بزنس ٹائیکون کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں بزنس ٹائیکون نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔

تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں بزنس ٹائیکون کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔

2019 میں عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں نیب نے اس کیس میں انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا تھا۔ یہ نیب کی تحقیقات کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے جس میں گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ جبکہ اس سے قبل نیب القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، کرپٹ پریکٹیسز اور برطانیہ سے موصول ہونے والی جرائم کی رقم کی وصولی میں اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کی انکوائری کررہا تھا۔ انکوائری کے بعد نیب کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کرنے کے لیے مناسب مواد مل گیا۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ چیف جسٹس
100 واں ڈے،پی سی بی نے بابر اعظم کی فتوحات کی فہرست جاری کر دی
لندن میں نواز شریف کے نام پرنامعلوم افراد نے تین گاڑیاں رجسٹرکرالیں،لندن پولیس کی تحقیقات جاری
بینگ سرچ انجن تمام صارفین کیلئے کھول دیا گیا
انٹربینک میں ڈالر سستا ہوگیا
ووٹ کا حق سب سے بڑا بنیادی حق ہے،اگر یہ حق نہیں دیاجاتا تو اس کامطلب آپ آئین کو نہیں مانتے ,عمران خان
سعیدہ امتیاز کے دوست اورقانونی مشیرنے اداکارہ کی موت کی تردید کردی
جانوروں پر ریسرچ کرنیوالے بھارتی ادارے نےگائے کے پیشاب کو انسانی صحت کیلئے مضر قراردیا
یورپی خلائی یونین کا نیا مشن مشتری اور اس کے تین بڑے چاندوں پر تحقیق کرے گا
نیب میں جب کوئی کیس بنتا ہے تو وہ عموماً 4 مراحل سے گزرتا ہے جس میں سب سے پہلا مرحلہ شکایت کی تصدیق ہوتا ہے جس میں چھان بین کی جاتی ہے۔ اگر تصدیق کے عمل میں کچھ کامیابی ملتی ہے تو اگلے مرحلے میں انکوائری کا آغاز کیا جاتا ہے ۔ انکوائری کے بعد اگر تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے ثبوت مل جائے تو اس انکوائری کو اگلے مرحلے میں انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا جاتا ہے جس کے بعد نیب عدالت میں ریفرنس فائل کیا جاتا ہے۔ نیب نے ماضی میں انکوائری کے مرحلے میں بھی سیاسی اور دیگر افراد کے خلاف گرفتاریاں کی ہیں۔

Comments are closed.