قوموں کے عروج و زوال کا قانون! تحریر: محمد اسعد لعل

0
102

دنیا کی ترقی یا دنیا کے عروج و زوال کے لیے اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں اور قرآن مجید کی روشنی میں اُس کو دیکھیں تو ایک قانون ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے مادہ پر تجربات کیے اور مادہ جن قوانیں پر کام کرتا ہے وہ قوانیں دریافت کر لیے ہیں۔ جب یہ قوانین سائنسی طور پر دریافت ہو گئے ہیں تو آپ نے دیکھا کہ ایجادات کا انبار لگ گیا۔ یعنی انسان نے اپنے سننے، اپنے دیکھنے کی صلاحیت کو حیرت انگیز حد تک بڑھا لیا ہے۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ہم ان قوانیں کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
اسی طرح قوموں کے عروج و زوال کے بھی قوانین ہیں۔ ان کو اگر بالکل خلاصہ کے طور پر بیان کریں تو وہ تین ہی چیزیں ہیں بنیادی طور پر جو قوموں کو عروج پر قائم رکھتی ہیں۔قومیں دنیا کی سٹیج کے لیے منتخب کیسے ہوتی ہیں وہ ایک الگ بات ہے جبکہ عروج پر قائم کیسے رہتی ہیں اس کے لیے تین ہی بنیادی چیزیں ہیں۔
پہلی بنیادی چیز یہ ہے کہ کوئی قوم علم اور اخلاق کے لحاظ سےکس مرتبے پر ہے۔ یہاں علم سے مراد دنیاوی علم ہے، وہ علم جس سے آپ مادہ کے قوانیں دریافت کرتے ہیں، وہ علم جس کے مطابق آپ انسان کا مطالعہ کرتے ہیں اور معیشت اور معاشرت کے قائدے بناتے ہیں۔ اور اخلاق، یعنی وہ اخلاق جو اجتماعی زندگی کی ضرورت ہوتا ہے۔ جس میں انسانوں کے باہمی روابط کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ علم و اخلاق کے لحاظ سے اگر کوئی قوم پستی میں ہے تو پھر وہ عروج کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔
وہ کسی سطح پر بلند ہو کر آ گئی ہےتو اب اس کے لیےگویا توقع پیدا ہوتی ہے۔اور وہ دنیا کے مقابلے میں برتری پر چلی جائے تو سب سے زیادہ جو چیز نمایاں ہو گی وہ یہ ہے کہ اس قوم نے یا اس جماعت نے علم اور اخلاق میں برتری حاصل کر لی ہے۔
جو لوگ بھی عروج کا خواب دیکھتےہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ ان کی قومیں عروج کی طرف بڑھیں، ان کے لیے پہلا قدم جو ہو سکتا ہے وہ علم اور اخلاق کا ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی نظریہ ہے تو اس کے ساتھ اس کی یکسوئی کا معاملہ کیا ہے۔ یعنی کیا نظریاتی انتشار میں مبتلا ہے پوری کی پوری قوم یا اس کے ہاں جو بنیادی حقائق ہیں اس کے متعلق نظریہ یکسوئی کے ساتھ اختیار کر لیا گیا ہے؟
آپ نے قرآن مجید میں پڑھا ہو گا کہ جب اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کی تعریف کرتے ہیں یا تعارف کرواتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ مسلمِ حنیف تھے۔ یعنی یہ نہیں کہ وہ صرف مسلمان تھے بلکہ یکسو مسلمان تھے۔
اور تیسری چیز یہ ہوتی ہے کہ جو قوم اپنی برتری کا یا اپنی بہتری کا خواب دیکھتی ہے اس کی سیاسی وحدت کا کیا حال ہے۔ اگر آپ اس دور سے پہلے رومن امپائر کو دیکھیں تو تب سیاست میں مذہب بنیادی فیصلے کر رہا تھا۔اس کے بعد جو نئی دنیا پیدا ہوئی اس میں ہم نے دیکھا کہ خیالات میں تبدیلی آئی اور جو نئی دنیا بن کر ہمارے سامنے آئی ہے اس میں سیاسی وحدت کا فقدان ہوا اِس سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم برپا ہو گئی۔ یعنی خود مغربی قومیں اپنے اندرون سے ایک عسکری چیلنج سے دو چار ہو گئیں۔ دونوں جنگوں سے نکل کر ایک نظام بنایا گیا۔ وہ نظام یہ تھا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ بنایا گیا جس نےاس برتری کو یکسوئی میں بدل دیا ۔
اور اس یکسوئی میں سیاسی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
قوموں کا حقِ خود ارادی، قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس پر مغربی دنیا ٹھہری ہے۔
یہ تینوں چیزیں قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ چنانچہ اگر دنیا میں کسی بھی قوم کو بالا تر ہونا ہے تو اس کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ تسبیح پر سبحان اللہ کا ورد کر لے۔ جب یہ تین چیزیں کوئی قوم حاصل کر لیتی ہے تو اگر خدا نہ چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپ پوری تاریخ کا مطالعہ کر لیں ہمیشہ اسی اصول پر یہ معاملہ ہوا ہے۔
ہمارے دین میں یا قرآن میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہےکہ”میں ایک کے بعد دوسری قوم کو دنیا کی سٹیج پر آنے کا موقع دیتا ہوں،اور یہ موقع تو میں اپنے انتخاب سے دیتا ہوں۔بالکل ایسا ہے جیسے میں کسی کو امراء کے گھر میں پیدا کر دیتا ہوں تو کسی کو غرباء کے گھر میں، لیکن جب میں ایک بار کسی قوم کو یہ موقع دے دیتا ہوں تو پھر وہ اپنے عروج کو قائم رکھنے کے لیےاصول و قوانین کی پابند ہوتی ہے۔”
یہی وہ اصول و قوانین ہیں جو میں نے اوپر بیان کر دیے ہیں۔یعنی جب تک کوئی قوم ان پر قائم رہے گی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "میں اپنا معاملہ اُن سے تبدیل نہیں کرتا وہ دنیا میں اپنی برتری کو قائم رکھتی ہے” اور جب وہ قوم ان تینوں چیزوں سے محروم ہونا شروع ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ "میں بھی اپنا معاملہ ان سے تبدیل کر لیتا ہوں۔”اور اس کا پھر نتیجہ بیان کرتے ہیں” دنیا کی تاریخ میں ہر قوم کو اسی طرح موقع دیا ہے، ایک ترتیب کے ساتھ موقع دیا ہے۔ اور جب میں موقع دیتا ہوں تو نتیجے دو ہی نکلتے ہیں۔ قیامت کے دن تک میں اسی طرح ایک کے بعد دوسری قوم کو دنیا کی سٹیج پر لاتا رہوں گا، ان میں سے کچھ وہ ہوں گے جو طبعی موت مر جائیں گے، اور کچھ وہ ہوں گےجن کو میں پیغمبر بھیج کر تنبہ کرکےعذاب دوں گا۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔”
میں جب قرآن مجید کی روشنی میں دنیا کی تاریخ کو دیکھتا ہوں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوح ؑ کی اولاد میں سے پہلے حام کو اقتدار ملا پھر سامی قوموں کو اقتدار ملا اور اب یافث کی اولاد کے پاس اقتدار ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی سٹیج پر آخری قومیں ہیں لیکن اقتدار اور عروج کی بنیاد وہی تین چیزیں ہیں۔ جب تک یہ تین چیزیں حاصل ہیں یہ عروج پر رہیں گی۔ اگر آپ بھی عروج چاہتے ہیں تو آپ کو ان تین چیزوں پر عمل کرنا ہو گا۔
twitter.com/iamAsadLal
@iamAsadLal

Leave a reply