بھائی کی فوتگی پررانا شمیم کے پاس عدالت کے لئے وقت نہیں مگر لندن جانے کا وقت ہے اٹارنی جنرل

0
39
islamabad hoghcourt

آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر لگائے گئے الزامات پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی سماعت چیف جسٹس اظہرللہ نے کی-

باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ وکیل صاحب نے بتایا کہ 6 نومبر کو سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بھائی وفات پا گئے مگر اس کے بعد وہ لندن گئےبھائی کے فوتگی کے بعد لندن جا کر 10 تاریخ کو بیان حلفی بنایا-

اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ بھائی کی فوتگی کے لئے عدالت کے لئے وقت نہیں مگر لندن جانے کا وقت ہے،کل سے تمام میڈیا پر صرف ایک ہی ایشو چل رہا ہے یہ کوئی عام معاملہ نہیں اسکے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے-

عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت میں وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں-

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی کیخلاف توہین عدالت کیس کی ازخود سماعت میں چیف ایڈیٹر دی نیوز میر شکیل الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچےاسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ،اخبار کے چیف ایڈیٹر، ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور رپورٹر بھی پیش ہوئے جبکہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت سے غیر حاضر رہے رانا شمیم کے بیٹے والد کی جگہ عدالت میں پیش ہوئے نئے والد کی غیر خاضری کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ والد رات اسلام آباد پہنچے، طبعیت ٹھیک نہیں ہے-

رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی کہا ہم ایک ویڈیو عدالت میں چلانا چاہتے ہیں، لیپ ٹاپ لا سکتے ہیں؟ جس پر عدالتی عملے نے کہا کہ جج صاحب کی اجازت سے لیپ ٹاپ لا سکتے ہیں-

دوارن سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے ہیں ؟ جس پر رانا شمیم کے وکیل نے کہا کہ رانا شمیم کے بھائی کا انتقال ہوا ہے، انہیں پیش ہونے کیلئے وقت دیا جائے امریکہ میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کیلئے گئے تھے رات کو ہی واپس آئے ہیں-

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر وہ جعلی ہوتا ہے تو پھر شائع کرنے والے کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟ رانا شمیم کے وکیل نے کہا کہ ایک ہفتے کا وقت دیں جواب جمع کرائیں گےعدالت نے حکم دیا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کو زاتی حیثیت میں پیش ہونا ہوگا۔

وکیل رانا شمیم نے دعخواست کی سینیٹر فیصل واڈا کو اس کیس میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بے شک درخواست دائر کریں مگر اس کیس میں کسی کو شامل نہیں کریں گے-

دوران سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ توہین عدالت کی کارروائی نہ کرتا، انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے اور ان پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے-

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ ‏میرشکیل صاحب آپ سامنے روسٹرم پر آجائیں عدالت نے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بلایا چیف جسٹس اطہر من اللہ نے میر شکیل الرحمن سے استفسار کیا کہ آپ ایک لیڈنگ میڈیا آرگنائزیشن کے مالک ہیں اگر کوئی اپنا بیان حلفی نوٹرائز کراتا ہے تو آپ اسکو اخبار کی لیڈ بنا دینگے؟اگر لوگوں کا اعتماد عدالت پر ختم ہو جائے تو افراتفری پھیلتی ہے، اور آپ نے یہ کیا کیا ہے؟کیا عدالت میں کوئی شخص میرے ججز پر الزام عائد کر سکتا ہے کہ وہ کسی سے ہدایات لیتے ہیں؟ کیا لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھایا جا رہا ہے؟-

چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پوچھا کہ یہ بیان حلفی برطانیہ میں نوٹرائز ہوا؟ آپ انویسٹی گیٹو صحافی ہیں اور میں آپکا احترام کرتا ہوں جس بینچ نے سماعت کی وہ کس نے بنوایا تھا؟ چیف جسٹس نے انصار عباسی سے سوال کیا-

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کو سائلین کیلئے قابل احتساب سمجھتا ہوں احتساب عدالت نے 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی تھی، 16جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر ملک سے باہر تھے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی تھی،دونوں ججز ملک بھر کے قابل احترام ججز ہیں، آپ ہائیکورٹ سے پوچھ لیتے کہ کونسا بینچ اس وقت کیس کی سماعت کر رہا تھا-

انہوں نے استفسار کیا کہ آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا کیس الیکشن سے پہلے سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست کی تھی؟ خواجہ حارث پیشہ ور وکیل ہیں انہیں معلوم تھا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہوتا،کسی وکیل سے پوچھ لیں، ایک دن اپیل دائر ہو اور سزا معطل ہو جائے یہ نہیں ہوتا،ایک سال کیلئے ڈویژن بینچ تھے جنہوں نے اس ہائیکورٹ کو چلایاجج کے نام کی جگہ خالی چھوڑ کر آپ نے ساری ہائیکورٹ پر الزام عائد کر دیا-

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ہائیکورٹ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کیلئے سازشیں شروع ہو گئیں،میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھ کر دیدوں گا،چیف جسٹس ایک چیف جسٹس کے سامنے ایسی بات کرے اور وہ 3سال خاموش رہے،اچانک سے ایک پراسرار حلف نامہ آ جائے اور ایک بڑے اخبار میں شائع ہو جائے ملک کے بڑے اخبار نے فرنٹ پیج پر ایسی سٹوری کی جس سے عوام کا اعتماد اٹھاتا ہے، ہم پر تنقید کرے مگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں پر بحال ہونے دے-

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ یعنی ایک آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے،انہوں نے چیف ایڈیٹر کو دی نیوز کی ہیڈ لائن پڑھنے کی ہدایت کی جس پر چیف ایڈیٹر جنگ نے کہا کہ میری عینک کئی رہ گئی ہے،جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ انصار عباسی آپ پڑھیں، جس پر انہوں نے کہا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پہلے آپ ہیڈ لائن پڑھیں-

انصار عباسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب کیا کہیں گے، جو نقصان کرنا تھا وہ آپ کر چکے انصار عباسی نے کہا کہ اس پر ضرور کاروائی کریں کیوں کہ یہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے-

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اہم ترین عہدہ رکھنے والا شخص 3 سال بعد ایسا بیان حلفی کیسے دے سکتا ہے؟افواہیں ہیں کہ وہ بیان حلفی جعلی ہے اگر وہ جعلی ہوتا ہے تو پھر شائع کرنے والے کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟

چیف جسٹس نے عامر غوری سے استفسار کیا کہ ایڈیٹر کی حیثیت سے آپکی پالیسی اس خبر کو چھاپنے کی اجازت دیتی ہے ؟ جس پر عامر غوری نے کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی دستاویزات ہو تو آپ سٹوری کرسکتے ہیں عدالت نے استفسار کیا کہ کونسے دستاویزات؟ جو کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں آپ سوچتے ہیں کہ آپ کا کام صرف ایک میسنجر کا ہے۔دی نیوز انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا میں کیا فرق بچا ؟پورے سال سے دو بنچز ہی کام کرتے رہے، تب کس نے بنچ بنایا۔

عدالت نے تمام فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دنوں کے اندر جواب طلب کر لیا اور تمام فریقین کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی اور عدالت نے کیس کی سماعت 26 نومبر تک کے لئے ملتوی کردی-

نواز شریف اور مریم نواز کے متعلق گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے انکشافات پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیا ہے۔
اخبار کے ایڈیٹرانچیف، ایڈیٹر اور رپورٹر کو بھی نوٹس جاری کئے ہیں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے-

عدالتی حکمنامے کے مطابق خبرزیر التوا کیس سے متعلق ہے، عدالت سے باہر کسی قسم کا ٹرائل عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے، فریقین بتائیں کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

واضح رہے کہ جنگ اخبار کی آج شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا ایم شمیم نے دعویٰ کیا ہے کہ’وہ اس واقعہ کے گواہ ہیں جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریٹائرڈ جسٹس رانا شمیم کے بیان کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔ ثاقب نثار نے ہم نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے جنگ اخبار کی خبر کو بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیا۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کا کہنا ہے کہ انصارعباسی سےکی گئی باتوں پرقائم ہوں سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے پاس میری توسیع کا اختیار ہی نہیں جی بی اور آزاد کشمیر کی سپریم کورٹس سپریم کورٹ پاکستان کے ماتحت نہیں جی بی اور آزاد کشمیرکی سپریم کورٹس کے چیف جج کوتوسیع دینے کا اختیار وزیراعظم کا ہے۔

صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نوازشریف اورمریم کونشانہ بنانےکےپس پردہ سازش بےنقاب ہوگئی۔

اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف اورمریم کونشانہ بنانےکےپس پردہ سازش بےنقاب ہوگئی-


سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کاسچائی منکشف کرنےکااپناطریقہ ہے خبرعوامی عدالت میں نواز شریف اور مریم کی بےگناہی کاایک اورثبوت ہےالحمدللہ!

وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق خبر کو لطیفہ اور معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے پروپیگنڈا قرار دے دیا۔

معاون خصوصی شہباز گل نے خبر پر رد عمل دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ نااہل لیگ کو خبروں میں رہنے کیلئے روز کسی پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے جسٹس قیوم کو فون پر فیصلے لکھوانے والوں کی اخلاقی پستی ملاحظہ کیجیئے قوم کو سرٹیفائیڈ جھوٹوں سے سچائی کی امید نہیں-

معاون خصوصی شہبازگل کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپنے کا وقت ہوا چاہتا ہے سستے پولیٹیکل سٹنٹ سے منی لانڈرنگ اور کرپشن جیسے داغ نہیں دھوپائیں گے پاکستان کو لوٹنے والے دنیا میں مقام عبرت بنیں گے-


فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر کہا کہ انصار عباسی صاحب کی ایک حیرت انگیز اسٹوری نظر سے گزری جس میں ایک گلگت کے جج صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ ثاقب نثار صاحب کے پاس چائے پینے بیٹھے تو جج صاحب نے فون پر ہائیکورٹ کے جج کو کہا کہ نواز شریف کی ضمانت الیکشنوں سے پہلے نہیں لینی!


انہوں نے مزید لکھا کہ کیسےکیسے لطیفے اس ملک میں نواز شریف کو مظلوم ثابت کرانے کی مہم چلا رہے ہیں، اندازہ لگائیں کے آپ کسی جج کے پاس چائے پینے جائیں وہ آگے سے فون ملا کر بیٹھا ہے کہ آپ کے سامنے ہی ایسی ہدایات جاری کرے کہ کسی ملزم کی ضمانت لینی ہے یا نہیں لینی!ملزم بھی کوئی عام آدمی نہیں ملک کاوزیر اعظم-


فواد چوہدری نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ بیوقوفانہ کہانیاں اور سازشی تھیوریاں گھڑنےکی بجائے یہ بتا دیں نواز شریف نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جو بعد میں مریم نواز کی ملکیت میں دے دئیے گئے ان کے پیسے کہاں سےآئے؟ مریم نے کہا میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اب اربوں کی جائیداد سامنے آ چکی جواب اس کا دیں-

دوسری جانب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہائی نہ دینے سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے-

پاکستان کے سینئیر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں بتایا کہ ان کی چیف جسٹس(ر) ثاقب نثار نے میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے-


انہوں نے بتایا کہ میری ثاقب نثار صاحب سے تھوڑی دیر پہلے بات ہوئی۔ وہ انصار عباسی کے دعووں میں کسی بھی سچائی کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ تاہم انصار صاحب اب اتنے سالوں کے بعد ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس کے پیچھے اصل حقیقت کا پتہ لگا سکتے ہیں اگر دیگر زمینیں اور جائیداد نہیں تو؟

نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہائی نہ دینے سے متعلق خبر کو بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دے دیا ہے میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ ہیں جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔


رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کا یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021ء کو دیا گیا ہے۔ نوٹرائزڈ حلف نامے پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے دستخط اور ان کے شناختی کارڈ کی نقل منسلک ہے۔

تاہم اب سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جو خبر چھپی ہے وہ بے بنیاد ہے میں نے کسی کے لئے کوئی سفارش نہیں کی تھی ۔

ہم نیوز کے مطابق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یہ خبر حقائق کے منافی ہے رانا شمیم عہدے پر توسیع مانگ رہے تھے جو میں نے نہیں دی رانا شمیم چاہتے تھے کہ ان کو بطور چیف جسٹس عہدے پر توسیع دی جائے ان کی توسیع قانون کے مطابق نہیں بنتی تھی۔

Leave a reply