محققین کا کروڑوں اموات کا باعث بننے والے مرض کی ابتدا کا معمہ حل کرنے کا دعویٰ

0
33

سائنسدانوں نے انسانی تاریخ کی سب سے تباہ کن وبا سیاہ موت یا ببونک طاعون کے آغاز کا معمہ لگ بھگ 700 سال بعد حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

باغی ٹی وی : دی گارجئین کی رپورٹ کے مطابق محققین کا خیال ہے کہ انہوں نے بلیک ڈیتھ کی ابتدا کا تقریباً 700 سال پرانا معمہ حل کر لیا ہے، جو کہ ریکارڈ شدہ تاریخ کی سب سے مہلک وبا ہے، جو 14ویں صدی کے وسط میں یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں پھیلی تھی اور کروڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تجرباتی دوا سے کینسر کے تمام مریض شفایاب ،ماہرین نے تحقیق کو معجزہ قرار دیدیا

ویسے تو طاعون اس سے بھی زیادہ پرانا مرض ہے مگر 14 ویں صدی میں اس کی ایک قسم ببونک طاعون نے تباہی مچائی تھی اور ممکنہ طور پرتجارتی راستوں کے ذریعے ایک سے دوسرے خطے تک پہنچی اس وقت سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی تھی کہ اس وبا کا آغاز کہاں سے ہوا مگر ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باعث جواب نہ مل سکا۔

مگر اب سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ہم نے وبا کے آغاز کے مقام کو تلاش کرلیا ہے جس کو انہوں نے حیران کن دریافت قرار دیا ہے لیپزگ میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے ارتقائی بشریات کے پروفیسر جوہانس کراؤس نے کہا کہ ہم نے بنیادی طور پر وقت اور جگہ میں اصل کا پتہ لگایا ہے، جو واقعی قابل ذکر ہے ہمیں نہ صرف بلیک ڈیتھ کا آباؤ اجداد ملا ہے، بلکہ طاعون کی اکثریت کا اجداد بھی ملا ہے جو آج دنیا میں گردش کر رہے ہیں۔

سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے مل کر اس وقت کام شروع کیاجب اسٹرلنگ یونیورسٹی کےایک تاریخ دان ڈاکٹر فلپ سلوین نے کرغزستان کےایک علاقے میں 1330 کی دہائی کے اواخر میں جدید دور کے شمال میں اسیک کل جھیل کے قریب دو قبرستانوں میں اموات میں اچانک اضافے کے شواہد دریافت کیے۔

سعودی عرب میں سمندری چھپکلی کی 80 ملین سال پرانی باقیات دریافت

1248 اور 1345 کے درمیان 467 مقبروں کے پتھروں میں سے، سلاوین نے موت میں بہت زیادہ اضافہ کا پتہ لگایا، 118 پتھروں کی تاریخ 1338 یا 1339 تھی۔ کچھ مقبروں پر لکھی ہوئی

لیک اسیک کول نامی علاقے کے 2 قبرستانوں میں 1248 سے 1345 کے درمیان کے 467 کتبوں کا مشاہدہ کرنے پر ڈاکٹر فلپ نے دریافت کیا کہ 1330 کی دہائی میں وہاں اموات کی شرح میں اچانک بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا 1338 یا 1339 صدی عیسوی کے 118 کتبے وہاں موجود تھے کچھ کتبوں پر تحریروں میں موت کی وجہ "موتنا” کے طور پر ذکر کی گئی تھی، جو کہ "پیسٹیلنس” کے لیے شامی زبان کی اصطلاح ہے-

اس مقام پر مزید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ 1880 کی دہائی میں اس علاقے میں کھدائی کے دوران 30 ڈھانچوں کو قبروں سے نکالا گیا تھا اس کھدائی کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دورانچھ باقیات کا سراغ لگایا اور انہیں نے ڈھانچوں کی کچھ باقیات کو دریافت کیا ڈائریوں کا مطالعہ کرنے کے بعد،قبرستانوں کے مخصوص مقبروں سے جوڑ دیا۔

زندہ انسانوں کے پھیپھڑوں میں ’پلاسٹک‘ کی موجودگی کا انکشاف

اس کے بعد یہ تفتیش قدیم ڈی این اے کے ماہرین کے حوالے کر دی گئی، جن میں کراؤس اور جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹوبنگن میں ڈاکٹر ماریا سپائرو شامل ہیں جرمنی کے قدیم ڈی این اے کی جانچ پڑتال میں مہارت کرنے والے سائنسدانوں نے 7 ڈھانچوں کے دانتوں میں موجود جینیاتی مواد کا جائزہ لیا ان میں سے 3 میں Yersinia pestis نامی بیکٹریم کے ڈی این اے کو دریافت کیا گیا جو ببونک طاعون کا باعث بنتا ہے۔

بیکٹریم کے جینوم کا مکمل تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسی بیکٹریم سے طاعون کی وہ قسم بنی تھی جو کرغزستان سے 8 سال بعد دنیا بھر میں پھیل گئی تھی اس وبا کےنتیجےمیں براعظم یورپ کی 50 فیصد آبادی ہلاک ہوگئی تھی اب طاعون کی اس قسم سے ملتی جلتی قسم کرغز ستان کے چوہوں میں پائی جاتی ہےجبکہ لوگ اب بھی بوبونک طاعون سےمتاثر ہوتے ہیں، مگر اب بہتر حفظان صحت کی وجہ سے لوگوں میں اس جان لیوا بیماری کے کیسز کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں 2010 سے 2015 کے دوران اس بیماری کے 3248 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 584 مریض ہلاک ہوگئے تھے اس کو سیاہ موت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد کے مختلف اعضا جیسے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سیاہ ہوجاتے تھے-

چاند کی مٹی کا سب سے پہلا نمونہ نیلامی کےلیے پیش

Leave a reply