مزید دیکھیں

مقبول

کراچی:پارک کی کھدائی کے دوران اسلحے کی بوریاں برآمد

کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن سیکٹر ایل ون میں...

سیالکوٹ: پشاور سے لائی گئی منشیات کی بڑی کھیپ برآمد، 5 ملزمان گرفتار

سیالکوٹ، باغی ٹی وی( بیوروچیف شاہد ریاض ) پولیس...

طورخم بارڈر پر جاری کشیدگی کے خاتمے کیلئے گرینڈ قبائلی جرگہ تشکیل

خیبر:طورخم بارڈر پر جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے...

گوجرانوالہ: دارالامان میں خواتین کے عالمی دن کی تقریب، کمشنر کی شرکت

گوجرانوالہ ،باغی ٹی وی(نامہ نگارمحمدرمضان نوشاہی) خواتین کے عالمی...

ملالہ یوسفزئی کا شانگلہ کا ایک روزہ دورہ،آبائی گھر آمد

پاکستان کی معروف نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ...

کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جاسکتا؟ سپریم کورٹ

ایک رکن دوسری جماعت کو فائدہ دیتا ہے تو سسٹم کو خطرہ کیسے ہو گیا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی

اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دلائل دیئے گئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھا ہوا وہ عدالت کیسے پڑھے،اس نقطے پر سپریم کورٹ 2018کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کیساتھ بیان حلفی مانگا قانون میں بیان حلفی نہیں تھا عدالتی حکم پر لیا گیا،بیان حلفی کے بغیر کاغذات نامزدگی عدالت نے نامکمل قرار دیئے تھے، عدالتی حکم پر کاغذات نامزدگی سے نکالی گئی معلومات لی گی،عدالت نے فیصلے میں کہا انتحابی عمل میں شفافیت کے لیے بیان حلفی لیے گیے،

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپکو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو الگ نہیں پڑھا جاسکتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں انتخابات کی ساکھ اور تقدس کی بات کی گئی ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جماعتیں ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں،کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفی ہوسکتا ہے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہیے ،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے؟ کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں، رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے قانونی بددیانتی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا ،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ منحرف رکن اگر کسی کا اعتماد توڑ رہا ہے تو خیانت کس کے ساتھ ہوگی ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گی ،ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر واپس نہیں لے سکتا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ جس سمت میں تیر چلائے وہ کہیں اور چلا جائے ،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا مستعفی ہونے پر کوئی سزا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی مستعفی نہیں ہورہا یہی تو مسئلہ ہے ،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کسی سیاسی بندے کا ذکر نہ کریں ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس ہے اسی تک رہیں ،کیا 63 اے کے نتیجے میں سیٹ خالی ہونا کافی نہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سے انحراف از خود مشکوک عمل ہے ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں ،آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی،آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں ؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے، آرٹیکل 63 میں نااہلی دو سے 5 سال تک ہے ،قرض واپس کرنے پر نااہلی اسی وقت ختم ہو جاتی ہے،

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کمالیہ کی تقریر میں کیا کہا کہ ججز کو ساتھ ملایا جارہا ہے؟ کیا آپ نے وزیراعظم کی بات کا نوٹس لیا ہے؟ عدالتی سوالات کو کس طرح لیا جاتا ہے اسکو بھی دیکھیں سوشل میڈیا اور ٹی وی پر سنا تھا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی قائدین کو علم ہونا چاہیے کہ زیر التوا مقدمات پر بات نہ کریں، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے؟ کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جاسکتا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوالات کے ذریعے کیس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،عدالت تقاریر اور بیانات سے متاثر نہیں ہوتی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تقاریر سنتا نہیں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا. چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر بھی کارروائی سے متعلق احتیاط کرنا چاہیے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ وزیراعظم کو اعلیٰ عدالتوں پر اعتماد نہیں تو انکے نمائندوں کو کیسے ہو گا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ عدالت کو بیانات اور تقاریر سے متاثر ہونا بھی نہیں چاہیے وزیر اعظم کو عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس فیصلے کا آپ نے حوالہ دیا الیکشن سے پہلے کا ہے الیکشن سے پہلے کا قانون بعد میں کیسے لاگو کردیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن قوانین آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈکلیئریشن دے تو الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں، قانون میں طریقہ واضح کردیا ہے تو کیا چاہتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کسی کا سچ میں ضمیر جاگ گیا ہو، الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ آئے گا تو دیکھا جائے گا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ طریقہ کار سے متعلق کوئی سوال ریفرنس میں نہیں پوچھا،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین کس بنا پر ہو گا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے آج آپکے دلائل مکمل ہو جائیں گے،اصل نقطہ نااہلی کا ہے اس پر سب ہی آپکو سننا چاہتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج شاید مزید وقت درکار ہو،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا آپ مستقبل کے لیے ریفرنس لائے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی اجلاس میں کیا ہورہا ہے عدالتی کارروائی پر فرق نہیں پڑنا چاہیے، نااہلی کی مدت کے حوالے سے آرٹیکل 63 اےنیوٹرل ہے

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا سسٹم پر براہ راست اثر پڑتا سکتا ہے، 10سے15 اراکین منحرف ہو جائیں تو یہ سسٹم کا مذاق بنانے والی بات ہے، پندرہ لوگ حکومت بدل کر دوبارہ الیکشن لڑیں تو میوزیکل چیئر چلتی رہے گی ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے سسٹم کو بچانے کے لیے ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا سسٹم پر براہ راست اثر پڑ سکتا ہے،مطمئن کریں کہ منحرف ہونے سے سسٹم کو خطرہ ہو گا اور سنگین جرم ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ایک رکن دوسری جماعت کو فائدہ دیتا ہے تو سسٹم کو خطرہ کیسے ہو گیا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حلقے میں الیکشن کا کتنا خرچہ آتا ہو گا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل95 مشترکہ حکومت کی بات کرتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعت اپنے لیڈر کے خلاف عدم اعتماد کر سکتی ہے پارٹی خود عدم اعتماد کرے تو کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی،پارلیمانی پارٹی وزیراعظم تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے تو پارٹی سربراہ بادشاہ نہیں ہو گا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اصل نکتہ نااہلی کا ہے اس پر سب ہی آپکو سننا چاہتے ہیں، پارلیمانی پارٹی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کی سفارش کرے تو کیا پارٹی سربراہ روک سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سربراہ من پسند افراد کو ڈکلیریشن نہیں دے سکتا، یہ سیاسی فیصلہ ہے جو پارٹی سربراہ نے کرنا ہوتا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اصل معاملہ سیاسی نظام کے استحکام کا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت حکومت اپوزیشن کی مدد سے آئی ہے،جب تک ایوان خوش ہے کام چلتا رہتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی وزیراعظم کو ووٹ نہ دے اور عدم اعتماد بھی ناکام ہو جائے تووہ کام کرتے رہیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اچھا نظام ہے لیکن بعض چیزیں بہت پیچیدہ ہیں،جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا تمام جماعتیں آرٹیکل 63اے پر تاحیات نااہلی چاہتی ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سے قبل کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا گیا،اپنے پرائے تو سب ہی تاحیات نااہلی چاہتے ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو نااہلی کی مدت کا فیصلہ کرنے دیں ،جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارلیمنٹ اپنا کام کر چکی اب عدالت نے تشریح کرنی ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومتی جماعت کے اراکین مستعفی ہو جائیں تو بھی اکثریت ختم ہو جائے گی،ایسی صورت میں وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا ہککہ عوام اپنی رائے کا اظہار صرف ووٹ سے کرسکتی ہے،عدالت عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے تشریح کرے، جسٹس جمال نے کہا کہ منحرف رکن سے لوگ ناراض ہوں گئے تو ووٹ نہیں دیں گے،اسلام میں طلاق جائز ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرد کو چار اور عورت کو ایک شادی کی اجازت ہے،مناسب ہو گا طلاق اور شادی پر نہ جایا جائے آئین نے جرم کرنے والے اراکین کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا فیصلہ عوام پر ہی چھوڑنا ہوتا تو پانچ سال کی نااہلی شامل نہ ہوتی

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت ایک ندی ہے جسے بے وفائیاں آلودہ کرتی ہیں،بے وفائی اور منحرف ہونے کا مثبت مطلب کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے 63 اے شامل کیا گیا،چوری کے کام کی رسید نہیں ہوتی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گاڑی چلانا جرم نہیں لیکن اووراسپیڈنگ پر چالان ہوتا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ممکن ہے انحراف کرنا غلط کے خلاف ہی ہو، کسی سے غلط کو غلط کہنے کا حق کیسے چھینا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی پارلیمانی نظام کے لیے اہم ترین کیس ہے،دلائل مکمل کرنے کے لیے ایک سے دو سماعتیں مزید درکار ہوں گی ،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمعرات اور جمعہ کو بینچ لاہور میں ہو گا، رمضان شروع ہونے والا ہے ایک بجے سماعت ممکن نہیں ہو گی کل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں دوسرے وکلا کو وقت دینا لازمی ہے عدالت اپنے تحریری دلائل سے استفادہ کرے گی، کل ایک گھنٹہ آپ اور ایک گھنٹہ دوسرے فریقین کو سنیں گے، علی ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے دلائل دوں گا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دوسرے وکلا کا موقف سن کر ذہن مزید کھلے گا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان اور رضا ربانی کے دلائل سننا چاہیں گے ابھی تک ہوا میں گھوڑے چل رہے ہیں،پارلیمنٹ نے آج تک آرٹیکل 63 اے کی نااہلی کی مدت کیوں مقرر نہیں کی؟اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کیا سوچ کر شامل کیا گیا ،جمہوریت آئین کا بہترین ڈھانچہ ہے،جمہوریت کے لیے کیا اچھا ہے یہ سوچ کر دلائل دیں، وقت کی کمی ہے کوشش کریں دلائل مختصر ہی رکھیں،

ن لیگی وکیل نے کہا کہ لازمی نہیں کہ جمہوریت آلودہ کرنے والے اپوزیشن سے ہی نکلیں ، جسٹس جمال نے کہا کہ جمہوریت لوگوں سے اور لوگوں کے لیے ہوتی ہے، دیکھنا ہے حکومت بچانی ہے یا پارٹی،عوام کا فائدہ کس میں ہے یہ بھی مدنظر رکھیں گے

ہمارا ساتھ دو، خاتون رکن اسمبلی کو کیا آفر ہوئی؟ ویڈیو آ گئی

بریکنگ، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، قومی اسمبلی کا اجلاس طلب

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس، اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے

پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی

کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا،سپریم کورٹ

صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ کی تشکیل ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط

عدلیہ اورججز پرانگلیاں اٹھانا، ججز پر الزامات لگانا بند کریں،جس پراعتراض ہے اس کا نام لیں،چیف جسٹس

کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

سندھ ہاوس حملے کے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم

ممتاز حیدر
ممتاز حیدرhttp://www.baaghitv.com
ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں Follow @MumtaazAwan