پاکستان شوبز انڈسٹری کی نامور اداکارہ اور بلبلے کی مومو حنا دلپزیر نے اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پسند کی شادی ہوئی تھی لیکن پھر اچانک شادی کے چند سال بعد ہی ان کے شوہر نے انہیں غصے میں بلاوجہ طلاق دیدی۔

باغی ٹی وی : ڈرامہ سیریل ’بلبلے‘ اور ’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ میں اپنی جاندار اداکاری سے پاکستان شوبز میں منفرد پہچان بنانے والی اداکارہ حنا دلپزیر حال ہی میں عفت عمر کے شو میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی، شادی، طلاق ،شوبز میں آنے اور پاکستانی ڈراموں سے متعلق باتیں کیں۔

حنا دلپزیر نے اپنی شادی اور طلاق کے بارے میں بتایا کہ ان کی پسند کی شادی ہوئی تھی لیکن پھر اچانک شادی کے چند سال بعد ہی ان کے شوہر نے انہیں غصے میں بلاوجہ طلاق دیدی جس وقت میری طلاق ہوئی میں صرف 23 سال کی تھی اور میرا بیٹا مصطفیٰ صرف تین یا چار سال کا تھا۔

حنا دلپزیر نے بتایا کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا نہ ہی وہ کوئی برا انسان تھا میری نیک تمنائیں میرے سابق شوہر کے ساتھ ہیں۔

دوسری شادی نہ کرنے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے حنا دلپزیر نے کہا کہ پہلے وہ ڈیوٹی پر تھیں انہوں نے اپنے بیٹے مصطفیٰ کی پرورش کرنی تھی اور پھر بعد میں دوسرے کاموں ایکٹنگ وغیرہ میں بھی کافی مصروف ہو گئیں اور شادی کی طرف دھیان ہی گیا اور نہ ہی انہوں نے دوسری شادی کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں اور سوچنے کا ٹائم ملا کیونکہ انہوں نے کبھی خود کو اکیلا ہونے ہی نہیں دیا-

انٹرویو کے دوران حنا دلپزیر نے پاکستانی ڈراموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں ڈراموں میں کہانی چند خاص کرداروں سے آگے ہی نہیں بڑھ رہی جس میں بس ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی دکھائی جاتی ہے جن کی شادی کے لئے کبھی لڑکی کے گھر والے نہیں مان رہے تو کبھی لڑکے کے –

انہوں نے کہا کہ آج کل کے ڈرامے محبت اور نفرت کو گیج کرکے لکھے جا رہے ہیں ہمارے ہاں رویے لکھے جا رہے ہیں جذبے نہیں لکھے جا رہے جبکہ پہلے کہانی لکھنے والے اپنی تحریر میں آئیڈیالوجی لکھا کرتے تھے وہ اپنی تحریر کے ذریعے لوگوں کو ایک پیغام دیتے تھے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں پہلے ڈرامے مین کمال باتیں لکھی جاتی تھیں جو گرہیں کھولتی تھیں-

بلبلے کی اداکارہ نے کہا کہ آج ہمارے یہاں مصنف کو چند خاص اداکاروں کے نام دے دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ اداکار بھی پہلے سے ہی منتخب کرلیے جاتے ہیں کہ چار کریکٹر ہیں اس میں ہم نے اسے لینا ہے اس میں اسے لینا ہے اور ان سے مطالبہ کیاجاتا ہے کہ ان کو سامنے رکھ کر بس کہانی لکھ دیں-

انہوں نے کہا کہ کسی رائٹر کے دل کی بات اس کے لکھنے کی اجازت ہی نہیں ملتی ورنہ اتنے اچھا لکھنے والے اچھے اچھے اور پیارے لوگ آج بھی موجود ہیں کہ اگر کہ سہ ماہی ان کی سیاہی سے چلی جائے کسی بھی چینل پر تو معاشرے کے رویے بدل جائیں-

ایک وقت تھا کشمیر پر انگار وادی جیسے ڈرامے آتے تھے، اب تو ساس بہو کی لڑائیاں ہی…

پاکستان کی پہلی اوریجنل ویب سیریز ’چڑیلز‘ کا ٹریلر جاری

Shares: