سوشل میڈیا،محبت اور پڑھائ تحریر:خدیجہ نقوی

0
42

چند دنوں پہلے کی بات ہے سوشل میڈیا کی زینت بنی ایک ویڈیو ہر عام و خاص کی زباں پہ محو گفتگو تھی۔ جی ہاں میں لاھور میں ایک نجی یونیورسٹی میں پرپوزل کی وائرل ویڈیو کی ہی بات کر رہی ہوں۔
اس ویڈیو نے اپنے ہر طبقہ فکر کو اپنے اندر سمو لیا تھا کچھ لوگ لڑکی لڑکے کہ محبت کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے تو وہیں ایک طبقہ ایسا تو جو اسلامی نقطئہ نظر سے تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا۔۔۔۔ جب بات عورت کی آۓ اور اس طرح آۓ تو میرا جسم میری مرضی والی سوچ سے ہم آہنگی رکھنے والے کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اسلام میں سے صرف اپنے مطلب کو justify کرتا حصہ اٹھایا اور اس عمل کی حمایت میں اس جواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوۓ کہ اسلام میں لڑکی کو اسکی مرضی کا پورا اختیار دیا ھے۔
بات رسد و طلب کے خط کی طرح اپنی اونچائی کو چھو کہ آہستہ آہستہ گرنے لگی اور لوگ اس واقعے کو بھولنے لگے۔اس کے کچھ عرصے بعد سننے میں آیا کہ دونوں کی شادی ہو گئ ھے۔اور چ
پھر یہ خبر آئ کہ شادی نہیں ہوئ بات پکی ہو گئ ھے تعلیم مکمل ہونے کے بعد شادی ہو جاۓ گی جس سے ایک تسلی ہوئ کہ چلو آخر کو جو ہوا س ہوا مگر یہ ایک اچھا انجام ہو گا۔ایک دن ہونہی فیس بک سکرولنگ کے دوران ایک ویب چینل پہ لاہور یونیورسٹی کی طالبہ کا انٹرویو نظروں سے گزرا کہ جسے دیکھ کہ میں سر پکڑ کہ رہ گئ کہ ایک لڑکی جو اپنی اپنے ماں باپ کی عزت کو پس پشت رکھ کہ سرعام شہریار کو پرپوز کرتی ھے اور وہ اس لئے کہ لوگوں کو پتہ چل جاۓ کہ یہ دونوں جلد شادی کرنے والے ہیں اور جس کا جواب شہریار بھی مثبت انداز میں دیتا دیکھائی دیتا ہے لیکن کچھ عرصے میں وہ لڑکا اپنے وعدوں کو وفا نہ کرتے ہوۓ فیملی پریشر میں رشتہ ختم کئے اگلی زندگی کی جانب رواں دواں ہوتا ھے۔
یہاں سوال میرا ان لنڈے کے لبرلز سے ھے کہ کل تک جو محبت کے قصیدے پڑھتے تھکتے ہیں اب اس بے وفائی پہ کچھ تو شرم کر لیں۔
سوشل میڈیا کی آزادی ڈراموں اور فلموں میں کالج یونیورسٹی کی عشق محبت کی لازوال داستانیں آپ کے بچوں کو یونیورسٹی میں آئنسٹائن یا نیوٹن نہیں بلکہ ہیر رانجھا۔۔۔ لیلیٰ مجنوں کا پیروکار بنا رہی ھے۔
حد تو اس وقت ہوتی ھے جب یونیورسٹی کے انتظامیہ اس پہ کوئ سخت ایکشن نہیں لیتی جب تک ان پہ معاشرتی دباؤ نہ آۓ۔۔۔ شہریار اور حدیقہ کے کیس میں بھی یہی ہوا ان سے پہلے اس یونیورسٹی میں دو طلبہ کہ طرف سے دو بار یہ ڈرامہ ہو چکا ھے مگر وہ ایکسپیل ہونے سے بس اس لے بچے کہ انکی ویڈیوز وائرل نہیں ہوئ۔ اور یونیورسٹی پہ کوئی معاشرتی اور اخلاقی دباؤ نہ تھا۔
یہاں ایک سوال ان تعلیمی اداروں سے بھی ھے کہ مدرسے تو صرف درس و تدریس کا مسکن تھے تو کیوں آج انڈین گانوں پہ کالج یونیورسٹی کی فنکشنوں میں نوجوان اساتذہ کے سامنے تھرکتے پھرتے ہیں۔
کیوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادراے مغربی ثکافت کی پرچھائ بن گۓ ہیں۔۔۔
یہاں سوال اس باپ سے ھے کہ جس نے اچھا کمانے کے لیے دن رات ایک کردیا اولاد کو خود سے دور اور زندگی کے نازک ترین دور میں اکیلا چھوڑ دیا کہ جہاں باپ کی نظر میں یہ تک نہ آیا کہ میرا بیٹا یا بیٹی کس سے بات کرتا ھے کس طرح کی بات کرتا ھے۔
یہاں سوال ھے ایک ماں سے آج کی۔ماں جس کی زندگی میں گھر کے کام اور سوشل میڈیا رچ بس گیا ھے اپنا فارغ وقت اپنے پہ لگانے کی غرض سے یو ٹیوب فیس بک پہ وقت گزارنے والی خواتین اپنی بچیوں کی پرسنل زندگی میں اب کیوں دخل اندازی نہیں کرتی۔ بچوں کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں انکے حال پہ چھوڑ دیا جاۓ بلکہ آزادی تو یہ ھے کہ لڑکیاں جب کیپٹن مریم بن کے شہید ہوتی ھیں بے نظیر بن کے سیاست میں قدم رکھتی ہیں تو والدین کے ساتھ قوموں کا فخر بن جاتی ھیں۔

Twitter ID ‎@KhadijaNaqvi01

Leave a reply