سنا ہے آج مردوں کا عالمی دن ہے؟ — ماسٹر محمد فہیم امتیاز

0
69

مرد۔۔۔

جسں کی زندگی کچھ ایفرٹس کے گرد گھومتی رہتی۔۔۔ جیسے ہی ہوش سنبھالتا ہے، اس معاشرے میں سروائیو کرنے کے لیے تگ و دوو کرنا ہوتی ہے۔۔۔!!

عمر کا ایک ہندسہ عبور ہوتے ہی گھر والے باہر والے اس کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھنا شروع ہو جاتے کہ بھئی کما کر لا۔۔۔ گھر چلا۔۔۔ وہ جس نے ہزار شوق پالے ہوتے، اپنی زندگی کے حوالے سے وہ معاشرے کے پریشر گھر والوں کے سوالات رشتہ داروں کے طعنوں کی نذر ہوتے چلے جاتے آخر کار سب خواب دفن کر کے کسی بھی اوکھلی میں سر دے دیتا جس سے چار پیسے آنے لگیں، معاشرے کے منہ پر مارنے کے لیے۔۔۔

اگر کوئی متوسط طبقے سے تو بھائیوں کو لڑکپن سے ہی یہ بات سمجھانا شروع کر دی جاتی کہ گھر میں بہنیں ہیں۔۔۔بھائی بھلے چھوٹے ہوں بھلے بڑے انہیں ذمہ دار ہونا ہوتا۔۔۔ وہ باپ کے ساتھ کندھا ملا کر بہنوں کو عزت سے رخصت کرنے کی تگ و دوو میں جت جاتے، محنت مزدوریاں کرتے، گرمی سردی دھوپ جھڑ کسی بھی چیز کی پرواہ کیے بغیر۔۔۔

پھر جب مرد کی شادی کی بات آتی ہے تو ایک بار پھر یہ معاشرہ منہ پھاڑے کھڑا ہوتا۔۔۔

لڑکا اچا لما ہو۔۔ کھاتا کماتا ہو۔۔ یہ تو ایک لیول۔۔ پھر ایک لیول آتا لڑکے کے پاس اپنا گھر ہو۔۔ لڑکے کے پاس اپنی گاڑی ہو۔۔۔ اپنا ایسا کاروبار ہو۔۔اتنا بینک بیلنس ہو۔۔ اتنا زیور ڈالے۔۔۔فلاں فلاں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

وہ جو پہلے کچھ ذمہ داریوں سے کچھ توقعات سے بندھا تیسری دہائی پوری کرنے کو ہوتا یہ ڈیمانڈز اس کی زندگی کے کئی سال مزید کھا جاتیں۔۔۔

فکر معاش سے نکلتے نہیں کہ فکر قماش آن پڑتی۔۔۔

اور سب سے مزے کی بات ان سب ایفرٹس کو کسی کھاتے میں نہیں لکھا جاتا۔۔۔آپکے رشتے آپسے متعلقہ لوگ یہ بھول جاتے کہ مرد بھی انسان ہی ہوتا، اس کی کچھ ایموشنل نیڈز بھی ہوتیں ۔۔۔

وہ جسے اس مہنگائی کے عفریت سے بھی لڑنا،جسے گھر کا چولہا بھی گرم رکھنا، جسے بچو کا پیٹ بھی بھرنا، جسے بچیوں کے ہاتھ بھی پیلے کرنے، جس نے گدھے کی طرح جتے رہنا مسلسل کب بال سیاہ سے سفید ہوئے، کب روٹی سے نکل کر بچوں کی تعلیم اور کب تعلیم سے نکل کر بچیوں کی شادیوں کی فکر آن سر ہوئی ۔۔کچھ معلوم نہیں کسی کو پرواہ بھی نہیں۔۔۔وہ مرد جو اس مشکل ترین دور میں گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایندھن بنائے رکھتا، جو معاشرے کے جھوٹے معیاروں کو پورا کرتے کرتے کمر دوہری کروا لیتا۔۔ جو اپنے سب شوق سب خواب بھینٹ چڑھا دیتا ۔۔جو رشتہ داروں کے طنز وتشنیع سے لے کر حالات کے تھپیڑوں تک سب برداشت کرتا۔۔۔
وہ کئی بار ساری زندگی کی کمائی لٹا کر بھی اپنا آپ بیچ کر بھی ایک بیوی تک کو خوش نہیں کر پاتا ۔۔۔

وہ جو سارے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتا،وہ ماں اور بیوی(ساس اور بہو) کے درمیان کی رسہ کشی میں ادھڑتا ریشہ ریشہ ہو جاتا۔۔۔
جو زندگی کے مختلف سٹیجز میں کبھی بہنوں تو کبھی بیٹیوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے کرتے۔۔کہیں ماں کی خواہشات کا احترام کرتے کرتے۔۔۔ کہیں بیوی کی توقعات پر پورا اترتے اترتے۔۔ قبر کنارے جا پہنچتا۔۔۔

اس مرد کو یہ عالمی دن نہیں چاہیئے ۔۔۔

اس کے لیے ایک احساس کافی ہے اگر کیا جائے کہ جہاں عورت کو ایک محاذ درپیش ہوتا ازدواجی۔۔۔

وہاں مرد کو معاشی اور ازدواجی دونوں پہلووں پر بغیر کسی بھی ہمدردری کے یکساں مشقت کا سامنا ہوتا ہے ۔۔۔ اور وہ جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے ٹارچر سہہ رہا ہوتا۔۔۔ وہ گھر اور باہر دونوں جگہ پس رہا ہوتا، اس کے پاس سر رکھ کے رونے والا کوئی کندھا بھی نہیں ہوتا۔۔اس کے پاس مورد الزام ٹھہرانے کے لیے کوئی ولن بھی نہیں ہوتا۔۔ اس کی بھی کچھ ایموشنل نیڈز ہوتی ہیں۔۔۔اسے بھی کچھ سپورٹ کی ضرورت ہوتی، انڈرسٹینڈنگ کی ضرورت ہوتی۔۔۔بس یہ احساس کافی ہے مرد کے لیے اگر ہو تو ۔۔۔!!

Leave a reply