سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں، چئیرمن پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ نے حارث دلائل دیئے،خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التواء مقدمات کو واپس کردیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدس مقامات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں ؟ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا، خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے تحقیقات ہوں گئیں جن کے جائزہ کے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ واپس ہونے والے فورمز کا مستقبل بارے کسی کو معلوم نہیں ،نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمز پر بھی جائیں گے ؟ کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کو بھجنے کا کوئی اختیار ہے ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں، مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیار نہیں،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے دفتر میں قتل ہوگا تومعاملہ متعلقہ فورم پر جائے گا، مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے، دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس بارے ضرور پوچھیں گے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مجموعی طور پر 52 ویں سماعت کی، اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ ہوا ،عدالت نے دلائل کیلئے اٹارنی جنرل کی درخواست پر آج کا دن مقرر کیا تھا

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عدالت میں کہا کہ تحریری گزارشات عدالت کو جمع کروا دی ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں،ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے،مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکاڑد پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟

سپیشل پراسیکیوٹر ستار اعوان نے عدالت میں کہا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کچھ دیر تک پہنچ جائیں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہے، ان کی جانب سے تحریری دلائل دینگے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو پہلے بتا دیا جاتا توریگولر بنچ لگا لیتے، نیب ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی،

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ابھی تک نیب مقدمات واپس ہونے سے تمام افراد گھر ہی گئے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ نیب ترامیم وہی ہیں جن کی تجویز پی ٹی آئی دور حکومت میں دی گئی تھی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے کنڈ کٹ سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق سے ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ کہا گیا نیب ترامیم سے میں ذاتی طور پر فائدہ اٹھا چکا ہوں، اگر میں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانا ہوتا تو اسی قانون کیخلاف نہ کھڑا ہوتا، چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے لیکن نیب کو بتا دیا ہے کہ فائدہ نہیں اٹھائیں گے،نیب کو جمع کرایا گیا بیان بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زیرالتواء تحقیقات اور انکوائریاں ترامیم کے بعد سردخانے کی نظر ہوچکی ہیں، تحقیقات منتقلی کا مکینزم بننے تک عوام کے حقوق براہ راست متاثر ہونگے، خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو بھی 62 ون ایف کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، منتخب نمائندے اپنے اختیارات بطور امین استعمال کرتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنی دیا گیا ہے، وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پر سزائیں موجود ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے کرپشن پر فوجداری سزا نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کرپٹ آرمی افسر کا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسر فوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہو تو نیب قانون کی زد میں آتا ہے، اعلی عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استثنی نہیں ہے،آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ جج برطرف ہو جائے تو نیب کو کارروئی کرنی چاہیے،

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذرہوں اسمگلنگ یا سرمائے کی غیرقانونی منتقلی ہو،کارروائی ہونی چاہیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب رپورٹ کے مطابق کراچی میں 36 اور لاہور میں 21 ریفرنس زیر التوا ہیں ،نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ یہ ان ریفرنسز کے تفصیل یےجو ترمیم سے متاثر نہیں ہوئے جن کا ٹرائل چل رہا ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی طارق اعوان ہیں ان کے کیسز 8 سال سے چل رہے ہیں ،نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ یہ غیر قانونی الائمنٹ کے کیسز تھے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ پشاور میں تو کچھ باقی نہیں بچا ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے اس وقت ان کیسز کا ہے جو نہیں چل رہے ،جو مقدمات واپس ہوئے وہ ابھی تک نیب کے پاس پڑے ہیں؟ نیب پراسیکوٹرنے کہا کہ جی وہ ہمارے ہاس ہی ہیں سال 2022 میں 386 ریفرنس ہمیں واپس ہوئے

عمران خان کی درخواست پر نیب ترامیم پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ۔ کر لیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز

 جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا

میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہوگا،چیف جسٹس

قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش

نیب ٹیم توشہ خانہ کی گھڑی کی تحقیقات کے لئے یو اے ای پہنچ گئی، 

وفاقی دارالحکومت میں ملزم عثمان مرزا کا نوجوان جوڑے پر بہیمانہ تشدد،لڑکی کے کپڑے بھی اتروا دیئے

بزدار کے حلقے میں فی میل نرسنگ سٹاف کو افسران کی جانب سے بستر گرم کی فرمائشیں،تہلکہ خیز انکشافات

10جولائی تک فیصلہ کرنا ہے،آپ کو 7 اور 8 جولائی کے دو دن دیئے جا رہے ہیں 

Shares: