آجکل تعلیمی اداروں میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کیلئےاساتذہ کا انتخاب کرتے ہوئے قابلیت سے زیادہ خوبصورتی کو ترجیح دی جا رہی ہے نئی نئی تعلیم سے فارغ ہوئی لڑکیوں کو بناء کسی تدریسی تجربے یا کسی تدریسی تربیت کے کم تنخواہوں پر اسکولوں میں بطور استاد رکھ لیا جاتا ہے جن کی تعلیمی قابلیت میٹرک ، انٹر اور بہت زیادہ ہو تو گریجویشن ہوتی ہے لیکن کوئی پروفیشنل سرٹیفیکٹ یا ڈگری نہیں ہوتی۔
انہیں اسکول مالکان پیسہ بچانے کیلئے ہائر کرتے ہیں اور ایک ،دو گھنٹوں کی ورک شاپ کروا کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت پڑھانے کے لیئے اچھی طرح ٹیچر کی تربیت کر دی ہے جبکہ ہوتا سب کچھ اسکے برعکس ہی ہے ۔
ان لڑکیوں کے پڑھانے کے طریقوں میں تو جو غلطیاں ہوں سو ہوں مگر جو ایک چیز سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے وہ ہے پسندیدگی یا جانبداری ۔ ان ٹیچرز کو تمام بچوں میں جو بچہ یا بچی زیادہ پیارے لگتے ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے چاہے وہ گود میں بیٹھا کے کلر کروانا ہو یا اپنے ہاتھ سے لنچ بریک میں کھانا کھلانا ہو ۔ اب اگر یہی رویہ باقی تمام بچوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا تو قابلِ تعریف امر ہوتا مگر المیہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے
یہ کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیتی عملہ دراصل معصوم ذہنوں میں تعصب ، جلن اور حسد جیسے جذبات( جن کے نام سے بھی یہ معصوم ذہن ناواقف ہیں ) بھر رہا ہے جب ایک ٹیچر جو کے تمام بچوں کو یکساں تعلیم اور شفقت دینے پرمعمور کی گئی ہے بچوں کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھے گی تو دوسرے کمسن ذہنوں پہ کتنا منفی اثر پڑے گا باقی بچے اس مخصوص بچے سے گھلنے ملنے سے کترائیں گے ایک طرح سے اس بچے کا کلاس میں سوشل بائیکاٹ ہو جائے گا جس معاملے میں اس بچے کا قصور بھی نہیں ہوگا اسکی سزا باقی بچوں کی طرف سے اسکو دی جائے گی
دوسرے بچے اپنا احساس محرومی مٹانے کیلئے اسکو احساس کمتری میں مبتلا کر دیں گے اور یہ سب کوئی بھی بچہ جانتے بوجھتے نہیں کرتا لیکن یہ ان سے ہوتا چلا جاتا ہے اور وجہ ہوتی ہیں کم تعلیم یافتہ ، کم تنخواہوں پہ نوکریاں کرتی غیر تربیت یافتہ اساتذہ
یہ مسئلہ صرف چھوٹی کلاسز تک محدود نہیں رہتا بلکہ جیسے جیسے بچوں کی کلاس بڑھتی جاتی ہے بچوں میں مختلف طرح کے رویے جنم لیتے ہیں کچھ بچے اسی امتیازی سلوک کے بناء پہ خود کو دوسروں سے برتر تصور کرنے لگتے ہیں ، کچھ اساتذہ کی خوشامد کرکے آگے بڑھنے کو ذریعہ بنا لیتے ہیں
ایک چیز اور جو تعلیمی اداروں میں دیکھی جارہی ہے وہ والدہ یا کسی قریبی رشتہ دار کا اسی ادارے میں ٹیچر ہونا ہے جہاں انکے گھر کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں پھر وہاں جانبداری کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے اساتذہ آپس میں دوستاں کر لیتی ہیں اور پھر اس دوستی کا شکار لائق اور قابل بچے ہوتے ہیں
ان طور طریقوں سے ہم اچھے ذہنوں کا زیاں کردیتے ہیں وہ بچے جو روشن مستقبل کے ضامن تھے انکی آئندہ کی زندگی اندھیروں کی نظر ہو جاتی ہے وہ پڑھائی اور اسکول سے بھاگنے لگتے ہیں لعن طعن کی وجہ سے انکا دل تعلیمی اداروں سے اچاٹ ہوجاتا ہے اور اگر غلط لوگوں کے ہاتھ چڑھ جائیں تو پوری طرح برباد ہوجاتے ہیں
اس کے علاوہ کم عمر اور غیرپیشہ ورانہ ٹیچرز کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آگے داخلے کیلئے سال کے بیچ میں اسکول چھوڑ کے چلی جاتی ہیں جن کی وجہ سے معصوم بچے جو ان اساتذہ کے عادی ہوجاتے ہیں ذہنی طور پہ پریشان ہوجاتے ہیں اور انکی تعلیمی کارکردگی پہ یہ تبدیلی بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔
چھوٹے علاقوں میں یا نچلی سطح پہ کھولے گئے اسکول صرف اپنی طلبہ کی گنتی بڑھانے کی خاطر بگڑے ہوئے ، فیلیئرز اور بڑی عمر کے بچوں کو بھی کبھی سفازش ، کبھی اثر رسوخ اور کبھی لالچ کی بناء پہ باآسانی داخلہ دے دیتے ہیں جنکی وجہ سے کم عمر طلبہ کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ وقت سے پہلے ان معلومات کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں جس سے انکے کمسن ذہن سخت اثرانداز ہوتے ہیں انکا دھیان پڑھائی سے ہٹ کر دوسری سرگرمیوں کی جانب مبذول ہوجاتا ہے
یہ کم تعلیم یافتہ عملہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بے تحاشہ کوتاہیاں کرتا نظر آتا ہے ان کا خود کا مشاہدہ کم ہوتا ہے تو بچوں کے ذہنوں میں ابھرتے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بجائے یہ ٹیچرز ان کو کبھی ڈانٹ کر کبھی غلط جواب دیکر گمراہ کر دیتے ہیں ۔ ان ٹیچرز کو امتحانی پرچہ (کوئسچن پیپر) بھی سیٹ کرنا نہیں آتا اکثر ہی غلط مارکنگ کرتی دیکھائی دیتی ہیں مثلاً دو لائن کے سوال کے نمبر ۴، ۶ نمبر ہونگے اور بڑے سوال یا مضمون کے کم نمبر سیٹ کیئے ہوتے ہیں
پڑھے لکھے والدین سے یہ اساتذہ ایسے خوف کھاتے ہیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ان سے اگر میٹنگ رکھی جائے تو عموماً آپ کو والدین اساتذہ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور یہ اساتذہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے بچے کو ہی نالائق ، نااہل،نکما ثابت کرنے کے درپہ نظر آتے ہیں
ان سب سے ہٹ کر ایک اور مسئلہ جو آجکل درپیش ہے وہ ہے پرائیوٹ ٹیوشن کا۔ پہلے اگر کوئی بچہ پڑھائی میں کمزور ہوتا تھا تو اس کے لیئے ٹیوشن کی سہولت سے استفادہ حاصل کیا جاتا تھا لیکن آج کل ٹیوشن کے معانی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں اساتذہ اپنے ہی اسکول کے ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور امتحان سے پہلے ہی امتحانی سوالات بچوں کو رٹّا دیئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہی بچے اعلٰی نمبر حاصل کرکے اگلی جماعت میں چلے جاتے ہیں اور جن طالبعلموں نے محنت کرکے تمام سلیبس سے تیاری کی ہوتی ہے انکے نمبر کم آجاتے ہیں ۔
یہ جانبداری اور اجارہ داری کا سلسلہ دراصل ایک پوری نسل کی ذہنی تباہی کا موجب بنتا جا رہا ہے لیکن اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے انکی جانبداری اور اس ٹیوشن گردی کے نظام کے خاتمے پہ بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم ملک میں یکساں نظام تعلیم کی بات تو بہت زور و شور سے کرتے ہیں کہ ملک کے تمام طبقوں میں تعلیمی نصاب اور نظام یکساں ہونا چاہئیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھرتیوں ، انکی اہلیت ، قابلیت اور تربیت کی بھی پوری جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپنی چاہئے ۔ اساتذہ ہی قوم کے معمار ہیں اگر وہی بہترین نہیں ہونگے تو وہ ایک شاندار قوم کی تیاری میں کیسے معاون کردار ادا کر سکتے ہیں ؟ سوچیئے گا ضرور!
Twitter handle : @HaayaSays