طالبان کو درپیش چیلنجز تحریر: ثمرہ اشفاق

0
42

15اگست بھارت کے یوم آزادی والے دن افغان طالبان باآسانی تمام صوبوں پر اپنا کنٹرول سنبھالنے کے بعد دارالحکومت قابل پہنچے۔خون ریزی اور افراتفری سے بچنے کے لئے صدارتی محل میں مذاکرات شروع ہوئے۔سابق صدر اشرف غنی یہ بھانپ چکے تھے کہ جہاں سرکاری فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی اور ہتھیار ڈال دیئے وہاں اقتدار سے الگ ہونا ہی مصلحت ہے۔اس لیئے ان سمیت تمام سرکاری عہدیداران نے ملک سے فرار اختیار کر لی۔
یوں افغانستان میں ایک بار پھر اقتدار طالبان کے حصے میں آیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی بدلے ہوئے طالبان کے بدلے ہوئے انداز تھے۔تمام لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے کسی کے خلاف بھی انتقامی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا۔خواتین کو تعلیم سمیت تمام شرعی حقوق دینے کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے اور بلا خوف وخطر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
غیر ملکیوں سے سفارت خانے نہ بند کرنے اور انہیں مکمل سیکیورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی۔
گو کہ بظاہر افغانستان میں معمولات زندگی بحال ہونے لگے لیکن طالبان کو ابھی بیشتر چیلنجز درپیش ہیں،جن میں سب سے اہم مسئلہ معاشی ہے، امریکہ جو کہ افغانستان میں شکست سے دو چار ہو کر نکل رہا ہے اس نے افغانستان کے مرکزی بینک کے ساڑھے نو ارب ڈالر یہ کہہ کر منجمد کر دیئے کہ اس رقم کی رسائی ہرگز طالبان تک نہیں ہونے دیں گے۔اس کے بعد عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف نے بھی مالی امداد یہ کہہ کر روک دی کہ طالبان کو تسلیم کرنے کے حولے سے عالمی موقف غیر واضع ہے۔اس کے بعد جرمنی نے بھی 43 کروڑ ڈالر کی امداد بند کر دی۔تاہم یورپی یونین نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد جاری رکھی ہے۔اس طرح طالبان کے لیے امداد کے بغیر معیشت چلانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
معاشی چیلنج کے ساتھ ساتھ طالبان کے لیئے اقوام عالم کا اعتماد جیتنا اور خود کو تسلیم کروانا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔گو کہ طالبان کا انداز انتہائی محتاط ہے اور وہ کہیں بھی خود پر تنقید کا موقع نہیں دینا چاہتے لیکن عالمی برادری اس حکومت کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے اور پہل کرنے سے کترا رہی ہے۔پاکستان،روس اور چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہونے کے باوجود ابھی تک واضح حمایت حاصل نہ ہو سکی۔
اس کے علاوہ بہت سے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد بھی افغانستان سے باہر یا تو جا چکے ہیں یا جانے کے انتظار میں ہیں۔جبکہ طالبان یہ اعلان کر چکے کہ اپنے ملک کی ترقی میں یہاں رہ کر کردار ادا کریں۔ان کا اعتماد حاصل کرنا بھی افغانستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
تیسرا بڑا مسئلہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت بھی افغانستان سے ناکام اور مایوس ہو کر نکلا ہے۔بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کے بہانے وہاں کی سر زمین استعمال کر کہ امریکہ،اشرف غنی اور این ڈی ایس کی معاونت سے پاکستان میں بدامنی پھیلاتا رہا ہے۔اگرچہ سفارتی بہروپیے وہاں سے نکال لئے گئے لیکن بھارت بچے کچھے جاسوسوں اور دہشت گردوں کے ذریعے افغانستان میں بدامنی کی کوشش کرے گا۔
چاہے وہ قومی پرچم کو لے افغان عوام کو شتعال دلانا ہو یا خواتین کے حقوق کے نام پر پراپیگنڈا،بھارت باز نہیں آئے گا۔
دوسری جانب امریکہ بھی اپنا اثرورسوخ آسانی سے ختم نہیں کرے گا۔اپنی شکست کے گھاؤ بھرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
جیسا کہ امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا اور قابل ایئر پورٹ حملوں سے گونج اٹھا جس میں اب تک 183 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور اس کو جواز بنا کر صوبے ننگرہاری میں آج امریکہ کی جانب سے ڈرون حملا کیا گیا۔اور قابل دھماکے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔
کہتے ہیں کہ افغانستان بادشاہوں کا قبرستان ہے،اس کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے بس خواب ہی دیکھتے رہ گئے۔
لیکن افغانستان مزید کسی بدامنی یا خونریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پاکستان میں امن،افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔طالبان متعدد بار یقین دہانی کروا چکے کہ اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔امید کرتے ہیں ایسا ہی ہو ۔اب افغان عوام طالبان کو تسلیم کر چکی ہے تو امید کرتے ہیں اقوام عالم بھی طالبان کو تسلیم کر کہ امن کی خاطر حکومت سازی کا موقع دیں گے۔اس خطے میں بہت خون بہہ چکا،اب چمن کو کھلنے دو۔

Leave a reply