تمام اداروں کو آئین کے تابع کام کرنا چاہیے۔سینیٹر سید علی ظفر
ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایرا کے ملازمین کے حوالے سے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے خط اور 24 اگست 2020 کو منعقدہ کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد،وزارت پارلیمانی امور کے پی ایس ڈی پی کے بجٹ کے علاوہ الیکشن کمیشن سے الیکشنز (ترمیمی)آرڈنینس 2022 پر تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو الیکشنز ترمیمی آرڈنینس 2022 کے حوالے سے بتایا کہ 19فروری کو صدر مملکت نے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ الیکشن کمیشن نے آرڈیننس پر اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت کو آرڈیننس کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کی۔انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس آرڈیننس سے تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کا میدان نہیں ملتا ہے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ممبرانِ اسمبلی اور سینیٹرز کو انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت دی تاہم اس کے لیے ضابطہ اخلاق کو مزید سخت کردیا گیا تاہم عہدہ رکھنے والے صدر مملکت، وزیراعظم، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر و ڈپٹی سپیکر اسمبلی، وفاقی وزراء، وزراء مملکت، گورنرز، وزراء اعلیٰ، صوبائی وزراء، وزیراعظم کے معاون، میئرز / چیئرمین و ناظم کو الیکشن مہم سے روکا گیا ہے۔
رات کے اندھیرے میں آرڈیننس جاری کرنا درست نہیں,فاروق ایچ نائیک
کمیٹی کے رکن سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس آرڈنینس کی وجہ سے ملک کے جمہوری نظام پر جو اثرات مرتب ہونگے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور آرڈیننس کو مسترد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں آرڈیننس جاری کرنا درست نہیں ہے الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات کے باوجود وفاقی وزراء انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کے اجراء میں حکومت کی بددیانتی شامل ہے۔قائمہ کمیٹی کو اخلاقی اور سیاسی طور پر آرڈنینس کو مسترد کرنا چاہیے۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس وقت آرڈیننس پر عملدرآمد سب کی ذمہ داری ہے۔آرڈنینس پارلیمنٹ یا عدالت سے مسترد نہیں ہوا۔جب تک یہ آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا جائے اس وقت تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ تمام اداروں کو آئین کے تابع کام کرنا چاہیے۔صدر مملکت کو آئین کے مطابق آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہے اور اس پر عملدرآمد کرنا تمام اداروں کا فرض ہے۔ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم اور کچھ پارلیمنٹرین کو نوٹسزجاری اور جرمانے عائد کیے ہیں جو آئین کی روح کے خلاف ہے۔الیکشن کمیشن آئینی اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے تمام نوٹسز کو واپس کرے۔ جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو خلاف ورزی پر نوٹسز جاری کئے گئے ہیں۔سینیٹرسید علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق آرڈیننس قانون کا حصہ ہے جب تک عدالت اس کو ختم نہیں کرتی ہے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام قانون بنایا اورانتظامیہ کا کام قانون پر عملدرآمدکرنا، عدالت کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آرڈیننس جاری کیا ہے۔ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹراعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اس آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کی ہے اور یہ آرڈیننس آئین کی صریح خلاف ورزی ہے ہمیں اس کو مسترد کردینا چاہئے۔ آرڈیننس کے ذریعے کسی بھی آئینی ادارے کے اختیارات کو روکا نہیں جا سکتا۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی ضابطہ اخلاق بنانے کا اختیار حاصل ہے پارلیمنٹ کے پاس الیکشن کمیشن کے اختیارات صلب کرنے کا اختیار نہیں ہے آرڈیننس جاری کرنا بددیانتی ہے ہم سب کو اس آرڈیننس کو مسترد کرنا چاہئے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے اختیارات میں کمی نہیں کی جاسکتی ہے آئین کے مطابق شفاف انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ دنوں میں اس آرڈنینس کی وجہ سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی 98 خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جس میں 61خلاف ورزیاں حکومتی پارٹی کی جانب سے کی گئی ہیں۔قائمہ کمیٹی نے کثرت رائے سے آرڈنینس کو مسترد کر دیا۔ سینیٹر سید علی ظفر اورسینیٹر ثانیہ نشتر نے رائے دی کہ جب تک آرڈنینس پارلیمنٹ سے مسترد نہیں ہوتا قانون کا حصہ ہے اس پر عملدرآمد قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
سیکرٹری پارلیمانی امور نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزارت پارلیمانی امور کے پی ایس ڈی پی کے کوئی منصوبہ جات نہیں ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی فنڈنگ ہوتی ہے۔ایرا ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے کمیٹی اجلاس میں معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین وا راکین کمیٹی نے کہا کہ انسانیت کی خاطر ملازمین کی بہتری کیلئے کام کیاجائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایرا میں ریگولر ملازمین نہیں ہیں کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور منصوبہ جات کیلئے عارضی طور پر ملازمین ہائیر کیے جاتے ہیں۔ کل 544 ملازمین ہیں۔ ایرا این ڈی ایم اے ضم کیا جارہا ہے۔ ضم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ایک ایچ آر کی کمیٹی بنائی ہے جو انسانیت کی بنیاد پر ملازمین کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ کچھ ملازمین کو نکالنا اور کچھ کو رکھنا خلاف قانون ہے۔ ایک یکساں پالیسی ہونی چاہیے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنا چاہیے۔ قائمہ کمیٹی نے 30 دن کے اندر معاملے کے حل کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔
قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز ثانیہ نشتر، اعظم نذیر تارڑ، عابدہ محمد عظیم، فاروق ایچ نائیک، کامران مرتضیٰ، سید علی ظفراور مصطفی نواز کھوکھر کے علاوہ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان، سیکرٹری الیکشن کمیشن، ڈی جی ایرااور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی
پرویز الہیٰ سے پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی،بزدار سے ن لیگی رکن اسمبلی کی ملاقات
لوٹے لے کر پی ٹی آئی کارکنان سندھ ہاؤس پہنچ گئے
کرپشن مکاؤ کا نعرہ لگایا مگر…ایک اور ایم این اے نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا
ہمارا ساتھ دو، خاتون رکن اسمبلی کو کیا آفر ہوئی؟ ویڈیو آ گئی
بریکنگ، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد، قومی اسمبلی کا اجلاس طلب
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس، اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے
پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت ملتوی
کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا،سپریم کورٹ
صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلیے لارجر بینچ کی تشکیل ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط