ٹرکوں کے نیچے چُھپ کر پاکستان آکر سامان بیچنے والے افغان بچے

0
40
ٹرکوں-کے-نیچے-چُھپ-کر-پاکستان-آکر-سامان-بیچنے-والے-افغان-بچے #Baaghi

پاکستان کے شمال میں واقع طورخم بارڈر کراسنگ مشہور خیبر پاس کے ساتھ واقع ہے اور یہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان براہ راست رابطہ ہے یہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین کراسنگ بھی ہے۔

باغی ٹی وی : نجی ٹی وی کے مطابق اس تجارتی مرکز کے ذریعےہر روز درجنوں افغان بچے اور بچیاں ٹرکوں کے نیچے چھپ کر افغانستان سے پاکستان آتے ہیں تاکہ تازہ پھلوں، سبزیوں اور اشیائے ضروریہ کی بوریاں فروخت کرکے گھر والوں کیلئے پیسے کمائے جاسکیں۔

100 بااثر شخصیات کی فہرست جاری،کوئی پاکستانی شامل نہیں، ملا عبدالغنی برادر موجود

اس سامان میں پان کے پتے ، سگریٹ اور بیت الخلا کی اشیا بھی موجود ہوتی ہیں، کچھ سامان یہ منافع پر بیچ سکتے ہیں کیونکہ وہ کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ چیزیں جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، ایران سے لائی جاتی ہیں۔

بچوں کے مطابق وہ دن میں کبھی ایک بار تو کبھی دو بار بارڈر کراس کرتے ہیں، بارڈ کراس کرنے کے لیے یہ بچے افغانستان سے پاکستان جانے والے مال بردار ٹرکوں کے نیچے پہیوں کے درمیان چلتے جاتے ہیں اور سرحد پار ہوتے ہی نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور ٹرک آگے نکل جاتا ہے۔

بچے یہ طریقہ ٹرک ڈرائیوروں کے خوف سے اختیار کرتے ہیں کیوںکہ پکڑے جانے پر ٹرک ڈرائیور تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں یہ بچے ایک بوری کے عوض پاکستانی 1000 روپے تک کماتے ہیں۔

افغانستان کےمسئلے پر پاکستان سے رابطے میں ہیں امریکا

ان ہی میں سے ایک 11 سالہ فرید نامی بچے نے خلیجی جریدے ‘دی نیشنل’ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے لیکن والدہ زندہ ہیں، اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے مجھے یہ خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔

بچوں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں بوریاں کون دیتا ہے وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ایک گمنام شخص افغانستان میں بوریاں ان کے حوالے کرتا ہے اور پاکستان پہنچنے کے بعد ایک ایجنٹ کو ڈیلیوری کر دی جاتی ہے۔

بچے ٹرکوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی اس کی رفتار آہستہ ہوتی ہے وہ بھاگ کر ٹائروں کے اندر سے جاکر کہیں چھپ جاتے ہیں۔

چین کا سوشلسٹ اقدار پر مبنی "مہذب” انٹرنیٹ کو فروغ دینے کا منصوبہ

غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک افغان ڈرائیور نے بتایا کہ بچے روزانہ گاڑی کے نیچے چھپ جاتے ہیں اور سرحد عبور کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ انہیں چوٹ بھی لگتی ہے، اکثر پکڑے جانے پر بغیر اجازت سرحد عبور کرنے پر فوج انہیں واپس بھی بھیج دیتی ہے۔

دی نیشنل کی رپورٹ کے مطابق اب طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول کے بعد سرحد عبور کرنا تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے اور اس میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ نئی اعلان شدہ حکومت نے ابھی تک کراسنگ کا کوئی عمل وضع نہیں کیا ہے۔

امریکی فضائیہ کا مہنگا ترین بمبار طیارہ حادثے کا شکار

Leave a reply