یوٹرن کا بے تاج بادشاہ

0
72

یوٹرن کابے تاج بادشاہ

قیام پاکستان کے بعد سے ملک کی سیاست میں کافی نشیب و فراز آئے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ملک کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے اور عام آدمی کے شب وروز بدلنے کے لئے بیشتر سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے محض بلندوبانگ نعروں اور وعدے وعیدوں پر ہی اکتفا کرنا مناسب سمجھا جس کے نتیجے میں عام پاکستانی کے لئے ترقی و خوشحالی محض ایک سہانا خواب ہی رہا۔
2018ء کے انتخابات میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کامیابی حاصل کرکے ملک کا اقتدار سنبھالا، یہ اقتدار عمران خان کی 23 سالہ سیاسی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔عمران خان نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھتے ہوئے سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے ملک میں نوجوان اور متوسط طبقے کی قیادت کو سامنے لانے اور ملک میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا، اس کے علاوہ عمران خان سیاست کے آغاز سے ہی ملک کی نام نہاد اشرافیہ کے اقتدار میں آنے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار میں ‘باریاں’ لگانے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی کچھ ایسے اقدامات کئے جو ان کے برسوں کے سیاسی کیریئر کے دوران کئے گئے اعلانات اور بیانات سے متصادم تھے، ابتدا میں ناقدین نے ان اقدامات کو عمران خان کا واضح یو ٹرن قرار دیا اور بعد ازاں عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ ان کی جانب سے مذکورہ معاملات میں یو ٹرن لینا ملک و قوم کے مفاد میں تھا اور ایسا انہوں نے جان بوجھ کر کیا۔وہ ہمیشہ اپنے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے اور متعدد بار کہا کہ یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی، عمران خان کے مذکورہ بیان کے بعد ان پر مخالفین کی تنقید میں اضافہ ہوا۔
عمران خان نے اپنے یوٹرن بیانات سے نئی سیاست کا آغاز کیا اور یہ ثابت کردیا کہ لیڈر اپنی بات سے "پھر” بھی سکتا ہے اور سیاسی لیڈر کے قول وفعل میں تضاد معمول کا حصہ ہے۔

ماضی کا ذکر کیا جائے توعمران خان کے بہت سے ایسے یوٹرن ہیں، جواخبارات کی شہہ شرخیوں کا حصہ بنے، ذیل میں اسی سے پیوستہ کچھ ایسے ہی شاہکار یوٹرن کا مختصر احوال آپ کی یاد دہانی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے، بس پڑھتے جائیں اور سر پیٹتے جائیں۔جی ہاں عمران خان کے منظور نظر اور ق لیگ کے سینئر رہنما پرویز الہی کے بارے میں عمران خان نے ایک زمانے میں یہ فرمایا تھا کہ پرویز الہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے،عمران خان نے یوٹرن لیتے ہوئے نہ صرف اس ڈاکو کوپنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنادیا بلکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد بھی کردیا۔ عمران خان کا کہتا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری اس ملک کی امید ہیں، تاہم اختلافات سامنے آنے پر وہ اپنے بیان سے ہی دستبردار ہوگئے اور اس پریوٹرن لیتے ہوئے کہاکہ افتخار چوہدری بھی دھاندلی زدہ اور کرپشن میں ملوث ہیں۔ایک وقت تھا جب عمران خان کہتا تھا کہ میں شیخ رشید جیسے شخص کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ،اس پر خان صاحب نے یوٹرن لیاپھراسی شیخ رشید کو پہلے وفاقی وزیرریلوے اور اس کے بعدوزیرداخلہ بنادیا۔سال 2013 کے انتخابات کے تناظر میں عمران خان نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچر کا الزام لگایاتھالیکن بعد میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سیاسی بیان تھا۔عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ میں وزیر اعظم بن گیا تو کسی سے بھیک نہیں مانگوں گا اور اگر ایسا کیا تو خودکشی کرلوں گا، تاہم اس پرعمران خان نے یوٹرن لیا اورپاکستان کوعالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے شکنجے میں کس دیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ پیٹرول، گیس، بجلی سستی کروں گا ،جبکہ یوٹرن کی بدولت پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا،انہوں نے میٹروبس کوجنگلہ بس کہاتھااورکہاتھاکہ میٹرو بس نہیں بنائوں گا ،عمران خان نے اپنے اعلان کے برعکس یوٹرن لیکر پشاور میں ایسی ہی ایک بس سروس بناڈالی،انہوں ارشادفرمایاتھاکہ ڈالر مہنگا نہیں کروں گا پی ٹی آئی کی حکومت میں روپے کی بے قدری ہوئی اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہواجواس وقت دوسوروپے سے بھی تجاوزکرچکاہے۔ خیر عمران خان صاحب کی معاشی تباہ کاریوں پر لکھنے کو تو الگ کالم درکار ہے یہاں بات کرلیتے ہیں یوٹرن کی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے یو ٹرن کی توصیف میں آسمان کے تارے توڑ لانے سے قطع نظر یو ٹرن لغوی اور سماجی لحاظ سے احمقانہ عمل ہوتا ہے اور کمزور ذہن کے جذباتی فیصلوں کے بعد کسی بڑی مصیبت سے ڈر کر اپنے کہے سے پھر جانے اور قول وفعل کے تضاد کو کہتے ہیں۔ اس کو کسی بھی صورت ایک اچھی صفت قرار نہیں دیا جا سکتا مگر کیا کیجئے کہ نیا دور ہے،ہماری سیاست میں نئی اخلاقیات مرتب ہو چکی ہیں، بات کے جواب میں گالی دینا سیاست کا بنیادی اصول بن چکا ہے۔ دلیل سے بات کرنے والے کو احمق کہا جاتا ہے اور مہذب شخص کو بزدل کہا جانے لگا ہے۔ سیاست کے میدان میں فوٹو شاپ کے ذریعے کئے گئے کمالات ترقی اور یو ٹرن، نظریۂ ضرورت کے بعد اگلا نظریہ ٹھہرا۔ مان لیا، اس کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟ پچھلے کئی سالو ں سے مانتے ہی آرہے ہیں۔

Leave a reply