تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کون تھے ،کہاں پیداہوئےاورشہرت کیسے پائی

0
56

لاہور:تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی آج 55 سال کی عمر میں وفات پاگئے ،علامہ خادم حسین رضوی کوکون نہیں جانتا ، انہوں نے جس انداز سے شہرت کمائی شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوجوان کے مزاج اورحالات زندگی سے واقف نہ ہو، پھربھی اگرکسی کوان کی زندگی کے سفر کا کوئی خاص علم نہیں توپھرآج باغی ٹی وی اپنے چاہنے والوں کوبتاتا ہے کہ تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کون تھے ،کہاں پیداہوئےاورشہرت کیسے پائی،

ذرائع کے مطابق مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ نومبر 2017 کی بات ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا تھا ، جس کے بارے میں‌ پچھلے دودن سے بڑی گرم خبریں آرہی تھیں کہ معاہدہ بہت ہی اہم تھا

ادھر ذرائع کے مطابق ان کے بارے میں حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ لاہور کی ایک مسجد کے 52 سالہ خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔

مولانا خادم حسین رضوی جوکہ بریلوی مکتبہ فکرسے تعلق رکھتے تھے ان کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

انہیں اسباب کی وجہ سے ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا ہے۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا جا رہاتھا ۔خادم حسین رضوی کو گذشتہ برس کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔

ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا تھا ۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس اب موجود ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ ہیں۔ وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے تھے ۔

خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سےتھا ۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے ۔ ان کے دو بیٹے بھی مختلف احتجاج میں شریک رہے ہیں۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے ۔

علامہ خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی درج ہیں۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انھیں یاد نہیں۔ لیکن تحریک کے آغاز سے اب تک انھیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا ۔ شاید اس کی وجہ ان کی ’سٹریٹ پاور‘ ہے۔

جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور انھیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ ’خادم حسین رضوی اپنے اونچے عہدے والوں کے سامنے مغرور اور ماتحتوں کے ساتھ بدتمیز تصورکیے جاتے تھے‘۔

Leave a reply