زلزلہ اور  دو آنکھیں تحریر:یاسرشہزاد مانسہرہ۔

0
48

اپنے دوست رجب علی سے آج بالاکوٹ 2005 زلزلہ کی سولہویں برسی کی کوریج کے موقع پر ایک نشست ہوئی۔جس میں کافی باتیں ہوئی اور کچھ جب اُن سے یہ حال پوچھا کیا قیامت گزری تو جب رجب نے ہمیں بتایا تو قسم سے ہم پر اُس کی کہانی اُس کی زبانی سن کر قیامت گزری۔رجب علی نے کہا کہ

آٹھ اکتوبر وہ دن جب میرے بڑے بھائی ،بہن اور والدہ ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے

اس دن زلزلہ بالاکوٹ میں نہیں،،شاید میری شخصیت پہ آیا تھا جسکا ملبہ آج بھی میری روح پہ پڑا ہے

وہ دن جب سکول کو نکلنے لگا حسب عادت وہ دروازے میں کھڑی مجھے روانہ ہوتے دیکھتی رہیں۔۔میں نے کئی بار پیچھے مڑ کے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کتنی دیر ۔۔۔

۔۔انکی آنکھوں کی مقناطیسیت اس دن میرے قدم بوجھل کر رہی تھی۔۔ پھر پردہ ہلا اور وہ کالے سیاہ پردے کے پیچھے چلی گئیں

 ۔۔میں جب سکول سے واپس آیا تو ہمیشہ  کیطرح،، بلا کی پردہ دار ،وہ پھر بھی پردے میں ہی تھیں پر اس دفعہ پردے کا رنگ "سفید "تھا۔۔۔۔سر سے پائوں تک۔۔۔جیسے فرشتوں کی نظر بھی پڑنے سے کترا رہی ہوں

۔اتنی پردے کی شوقین کے اس سفید پردے پر بھی قرار نہیں آیا اور ایک اور خاکی رنگ پردے کو پہنا اور اچانک سے  بالکل ہی اوجھل ہو گئیں۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔میں آج بھی اپنی والدہ کی قبر پہ کھڑا ہو کے انکی” پردہ داری” کا گلہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔

پر وہ گلی میں جھانکتی آنکھیں آج بھی میرا پیچھا کرتی ہیں ۔میں چاہ کر بھی غلط کاری میں غرق نہ ہو سکا میں چاہ کر بھی ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا ،بس وہ دو چمکتی آنکھیں ہمیشہ مجھ پہ نظر رکھے ہوئے ہیں،مجھے ڈانٹی ہیں،مجھے بہلاتی ہیں ،،روٹھو تو منا بھی لیتی ہیں

ذرا بھی منزل سے بھٹکتا ہوں میری والدہ کی وہ چُبتی نظریں میرا راستہ روک لیتی ہیں

وہ میری راہبر بھی ہیں میری پیمبر بھی

میری سب سے بڑی بدقسمتی میرا "اچھا حافظہ ” ہے جو میرا سب سے بڑا دشمن ہے  مجھے وہ تلخ ترین یادیں بھولنے نہیں دیتا،امی اور بابا جانی کی کہی ہوئی ایک ایک بات مجھے آج بھی لفظ بہ لفظ یاد ہے

دو رمضان عشاء کے بعد جب بھائیوں نے میرے برے ٹیسٹ کا بتایا تو  مجھے نمناک آنکھوں سے دیکھتی چلی گئیں۔۔عجیب تھیں وہ ڈانٹا ،،نہیں مارا نہیں۔۔۔بس مجھ سے منہ ہی پھیر لیا۔۔۔۔۔پھر رات نہ جانے کتنی دیر میں انکے پائوں سے لگا روتا رہا۔۔۔میرے آنسوئوں کی پائوں پہ دستک سے بیدار ہوئیں مجھے ایسے گلے لگایا جیسے مجھے روح میں اتار دیں گی۔۔۔۔امی جی مان جائیں نہ ۔۔۔۔۔وہ ایک ننھا وجود بلبلایا تھا۔آپ کیسے خوش ہونگی مجھے بتائیں دنیا آپکے قدموں میں لا رکھوںگا

خوش۔۔۔۔۔مجھے اصل خوشی تب ہو گی جب تم "بڑے آدمی بن جائو گے”۔۔۔۔۔۔میں سر ہلاتا انکے پائوں چومتا باہر نکل آیا تھا

بڑا آدمی؟؟؟؟ مجھے تو آج تک اسکی تعریف کا بھی علم نہیں ہو سکا  کہ یہ "بڑا آدمی” ہوتا کیا ؟ بننا تو دور کی بات ہے

 آج تک اپنی امی سے کیا وعدہ نبھانے کی کوشش میں ہوں،،،مگر میری نالائقی میری خامیاں میرے رستے کی سب سے بڑی دیوار ہیں۔

وہ آنکھیں مجھے راہ دکھاتی ہیں میں منزل سمجھ کر پاگل دیوانوں کیطرح ادھر دوڑ پڑتا ہوں ننگے پیروں سے انگاروں بھرے اس راستے پہ چلتا ہوں اور جب منزل مجھے حاصل ہوجاتی  ہے وہ آنکھیں پھر ایک نئی منزل کا کا راہ دکھا دیتی ہیں۔۔۔رمضان المبارک کے مہینہ ہے سب بھائی دعا ضرور کیجیئے گا”  کہ مرنے سے پہلے یہ نالائق،یہ سرپھرا شخص اپنی امی سے کیا وعدہ ضرور نبھائے،،،اور ،کردار کا بہت چھوٹا یہ شخص "بڑا آدمی ” ہو جائے

ورنہ وہ دو آنکھیں مجھے شاید قبر میں بھی چین سے سونے نہ دیں

اے شوق سفر اتنا ،مدت سے یاسر ہم نے

منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا۔

https://twitter.com/YST_007?s=09

Leave a reply