سائفر کیس میں چیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دیر سے آنے پر معذرت کرتا ہوں ،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میرے 60 فیصد دلائل مکمل ہو گئے ہیں ،تینوں اسپیشل پراسیکیوٹرز عدالت میں پیش ہوئے،اسپیشل پراسکییوٹر راجہ رضوان عباسی، شاہ خاور اور ذوالفقار نقوی بھی روسٹرم پر موجود تھے،اسپیشل پراسکییوٹر رضوان عباسی نے جیل میں ٹرائل کے دوران نقول کی فراہمی کا معاملہ اٹھا دیا
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ جیل ٹرائل کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے نقول وصول کیں لیکن دستخط نہیں کیے،9 اکتوبر کو نقول ملزمان کو دیں گئیں،ملزمان کے وکلا نے کہا ہے کہ جیل سماعت کیلئے ان کی درخواست زیر التوا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جیل سماعت کیخلاف درخواست پر فیصلہ کل یا پیر کو آ جائے گا،اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت ان کیسز کو اکٹھا کرکے ہی سن لے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ضمانت کا کیس الگ ہے اس کو الگ ہی سنا جانا ہے،ٹرائل کے حوالے سے کوئی اسٹے آرڈر موجود نہیں، ٹرائل کورٹ نے ٹرائل اپنے لحاظ سے چلانا ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ٹرائل کو چلنے نہیں دے رہے،
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا ،وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے، سیکشن فائیو کا اطلاق مسلح افواج کے معاملے پر ہوتا ہے ، اس کیس میں کوئی نقشے کوئی تصویر اور قومی سلامتی کا مواد لیک نہیں کیا گیا ، آج سے پہلے کسی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے خلاف سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہوئی، یہ بہت بدنامی کی بات ہے، یہ قانون صرف فوجیوں کے لیے ہے، میں نے یہ سوال اٹھایا یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں کیا، وزارت داخلہ  اس کیس میں فریق کیسے ہو سکتا ہے ؟ مارچ میں چیئرمین پی ٹی آئی نے ایک جلسے میں صفحہ لہرایا ، ایف آئی آر میں اسکا بھی ذکر نہیں ،
اس کیس میں کہیں یہ ثابت نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ملکی راز دشمن کیساتھ شیئر کیا ، یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ سائفر کی لینگویج پر ایک غیر ملکی سفیر کو ڈیمارش کیا گیا ، چیئرمین پی ٹی آئی سیاسی قیدی ہیں،ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ سائفر کو ریکور کرنا ہے۔ان کے الزامات ہیں کہ سائفر کو اپنے پاس رکھا اور ٹوئسٹ کیا۔انہوں نے سائفر کو ریکور ہی نہیں کیا تو یہ کیسے پتہ چلا کہ اس کو ٹوئسٹ کیا۔ایف آئی آر میں نہیں بتایا گیا کہ یہ معاملہ کابینہ اجلاس اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں رکھا گیا، سائفر  والا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی لے جایا گیا،  میں حیران ہوں یہ اس معاملے کو کریمنل ڈومین کو کیسے لے آئے،
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ معاملہ چار فورمز پر رکھا گیا اور بعد میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ، کابینہ اجلاس، نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ اور سپریم کورٹ میں بھی معاملہ ڈسکس ہوا،یہ معاملہ دو مرتبہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے پاس گیا،
اس کے متن کے اوپر فارن ڈپلومیٹ کو بلا کر احتجاج کیا گیا، پراسیکیوشن کے سائفر کیس میں بہت سے لنکس مسنگ ہیں۔ سوموٹو کیس میں سائفر کا سارا معاملہ ڈسکس ہوا  ، سپریم کورٹ میں اس کو کہیں نہیں کہا گیا کرمنل ایکٹ ہوا ہے۔
نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے پاس گیا کابینہ کے پاس گیا انہوں نے نہیں بتایا ،سائفر کی جو لینگوئیج ہے وہ قابل مذمت ہے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ کا لب لباب تھا ،سائفر کی زبان کے استعمال پر احتجاج کیا گیا ،سات مارچ 2022 کو سائفر وصول ہوا ،عدالت نے استفسار کیا کہ سائفر امریکہ سے وصول ہوا ؟  اسپیشل پراسیکیوٹرنے کہا کہ پاکستان ہائی کمیشن امریکہ سے وصول ہوا ،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 27 مارچ کا یہ کہتے ہیں بتایا نہیں لہرایا ایف آئی آر میں نہیں ہے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں اس کے سامنے رکھا گیا ،9 اپریل 2022 کو کابینہ کی میٹنگ میں ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا ، چیف جسٹس ، اسپیکر ، صدر کے پاس بھیجا گیا ،
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ سائفر سات مارچ 2022 کو آیا اور گیارہ مارچ تک پٹیشنر کے پاس رہا، گیارہ اپریل کو شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم حلف لیا، وزیراعظم کی سربراہی میں 24 اپریل کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی،پانچ ماہ بعد کابینہ ایف آئی اے کو آگاہ کرتی ہے کہ سائفر وزیراعظم ہاؤس سے غائب ہے،ایف آئی اے چھ دن بعد اس معاملے پر انکوائری سٹارٹ کر دیتی ہے،اگر سائفر وزیراعظم ہاؤس میں تھا تو کیا شہباز شریف اس کیس میں ملزم ہیں؟ انہیں شامل تفتیش کر کے بیان لیا گیا؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ سائفر کے بغیر کیوں کی گئی تھی؟ ایف آئی اے کا کیس ہے 33 دن سائفر عمران خان کے پاس رہا جبکہ یہی سائفر سابق وزیراعظم شہباز شریف کے پاس 169 دن رہا کیا شہباز شریف اس کیس میں ملزم ہیں ؟ کیا شہباز شریف کا بیان ریکارڈ کیا گیا ؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ریکارڈ مینٹین کرنا اس کے آفس کی ذمہ داری ہوتی ہے ،اگر یہ کرمنل ایکٹ اعظم خان کو معلوم تھا تو وہ مدعی کیوں نہیں ؟اعظم خان 15 اگست کو ملزم ٹھہرتے ہیں ، پھر اعظم خان لاپتہ ہوتے ہیں پریشر دھمکی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، یہ ڈاکومنٹری ثبوتوں کا کیس ہے کہاں ہیں وہ دستاویزات ؟ فزیکل ریمانڈ تو ان کو ملا نہیں ،نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی پریس ریلیز عدالت کے سامنے پڑھی گئی ،وکیل نے کہا کہ میں صرف ضمانت کے کیس پر دلائل دے رھا ہوں کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ
کیا کابینہ کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ کے سامنے تھے ؟  اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ کابینہ کے میٹنگ منٹس بھی کلاسیفائیڈ ہوتے ہیں ،سپریم کورٹ کے سامنے بھی پریس ریلیز ہی تھیں وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جب پراسیکیوشن کے پاس کچھ نا ہو تو پھر شریک ملزمان کے بیانات کا سہارا لیا جاتا ہے ،اعظم خان کا بیان انہوں نے شامل کیا ہے حالانکہ وہ ایف آئی آر میں نامزد ہے ،عدالت اس معاملے سے آگاہ ہے کہ اعظم خان کے لاپتہ ہونے پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی ،بیرسٹر سلمان صفدر نے اعظم کی گمشدگی کی ایف آئی آر عدالت میں پیش کردی  اور کہا کہ قانون کے مطابق ایسے بیان کی کوئی حیثیت نہیں جو غیر قانونی حراست کے دوران دیا گیا ہو، ریکارڈ کی دیکھ بھال پرنسپل سیکرٹری کی ذمہ داری ہوتی ہے ، الزام ہے کہ سابق وزیر اعظم سائفر کو اپنے ساتھ لے گئے ،ایسی صورتحال میں تو اس مقدمے کا مدعی اعظم خان کو ہونا چاہئیے تھا ،
سائفر کیس عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ، سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہو گئے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت پلیز آج ضمانت پر فیصلہ کر دے ، پیر کے روز ٹرائل کورٹ فرد جرم عائد کرنے لگے ہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا جب دلائل مکمل ہو جائیں گے دو تین دن فیصلے میں لگیں گے جتنا وقت آپ کو دیا ہے اتنا وقت پراسیکیوشن کو بھی دوں گا
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کر دیا ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ شروع کریں سوا چار بجے تک ، پھر آئندہ دلائل ہوں گے ،اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ” قانون کے پرانے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا عمل نہیں ہو گا 1960 میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو آرمی ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا اگر وہ چاہییں تو فوجی عدالتوں میں بھی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں "، عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی وزیر اعظم ، صدر ، گورنر آتے ہیں کیا پوری زندگی وہ آفیشل سیکرٹ کو ظاہر نہیں کر سکتے؟اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ بالکل پوری زندگی وہ ڈسکلوز نہیں کر سکتے،یہ ایسا ڈاکومنٹ ہے جس کو آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے وہ واپس جانا ہے، یہ سیکریٹ ڈاکومنٹ تھا ڈی کلاسیفائیڈ بھی نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چالان کے ساتھ جو ڈاکومنٹ ہیں کیا سائفر کی کاپی اس کے ساتھ منسلک ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ چالان کے ساتھ سائفر کی کاپی نہیں لگ سکتی ،گواہوں کے بیانات بھی ہیں وزارت خارجہ سے متعلق بھی گواہ ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ نا کوڈڈ نا ہی ڈی کوڈڈ سائفر چالان کا حصہ ہے؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ سیکریٹ ہونے کی وجہ سے اس کو چالان ہے ساتھ منسلک کر نہیں سکتے،
سائفر کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی، اسپیشل پراسیکیوٹر دلائل جاری رکھیں گے
خیال رہے کہ عمران خان نے بیرسٹر سلمان صفدر ایڈووکیٹ کی وساطت سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر گمشدگی کیس میں درخواست ضمانت دائر کی، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے استدعا کی گئی کہ انہیں ضمانت پر اٹک جیل سے رہا کیا جائے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ استغاثہ نے بدنیتی پر مبنی مقدمہ درج کیا14 ستمبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کی خصوصی عدالت کی جانب سے بے ضابطگیوں اور استغاثہ کے متعدد تضادات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔
سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد ہونے کا 7 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا،تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ” عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف ناقابل تردید شواہد ہیں جو ان کا کیس سے لنک ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ریکارڈ کے مطابق ملزمان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 اور 9 اور ناقابل ضمانت دفعات کے جرم کے مرتکب ٹھہرے ، ضمانتیں خارج کرنے کے لیے مواد کافی ہے ہمیں یہ مدنظر رکھنا چاہیے یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ٹاپ سیکرٹ کیس ہے آئندہ سماعت پر غیر متعلقہ افراد پر دوران سماعت پابندی ہو گی عدالتی ہداہت کے باوجود پٹشنرز کی جانب سے سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا میرٹ اور سرٹیفکیٹ دینے کے عدالتی آرڈر پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ضمانت خارج کی جاتی ہے
عدالت نے اپنے آرڈر میں ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کے دلائل لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ” پراسیکیوشن کے مطابق 161 کے بیانات کے مطابق عمران خان کی جانب سے سائفر کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنا ثابت ہے اور انہوں نے غیر متعلقہ افراد کے سامنے سائفر معلومات گھما پھیرا کر شئیر کیں، جس نے بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچایا اور پاکستان کی سیکیورٹی کو متاثر کیا ،
جو کام حکومتیں نہ کر سکیں،آرمی چیف کی ایک ملاقات نے کر دیا
جنرل عاصم منیر کے نام مبشر لقمان کا اہم پیغام
عمران خان پربجلیاں، بشری بیگم کہاں جاتی؟عمران کےاکاونٹ میں کتنا مال،مبشر لقمان کا چیلنج
ہوشیار۔! آدھی رات 3 بڑی خبریں آگئی
بشریٰ بی بی، بزدار، حریم شاہ گینگ بے نقاب،مبشر لقمان کو کیسے پھنسایا؟ تہلکہ خیز انکشاف
لوٹوں کے سبب مجھے "استحکام پاکستان پارٹی” سے کوئی اُمید نہیں. مبشر لقمان
لوگ لندن اور امریکہ سے پرتگال کیوں بھاگ رہے ہیں،مبشر لقمان کی پرتگال سے خصوصی ویڈیو








