ناسا نے زمین سے 50 کروڑ نوری سال کے فاصلے پرکہکشاں کی رنگین تصاویر جاری کر دیں

0
46

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے زمین سے 50 کروڑ نوری سال کے فاصلے پرکہکشاں (کارٹ وہیل گلیکسی) اور اس کے مرکزی بلیک ہول کی نئی رنگین تصویر کھینچی ہے۔

باغی ٹی وی :حال ہی میں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے لی گئی کائنات کی پہلی رنگین تصاویر جاری کی گئی تھیں اور اب اس نے ایک ایسی نئی رنگین تصویر کھینچی ہے جو زمین سے 50 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود پہیے نما کہکشاں کی ہے۔


رپورٹس کے مطابق ناسا کی جانب سے جاری کردہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی نئی تصویر سے ستارے کی تشکیل اور کہکشاں کے مرکزی بلیک ہول کے بارے میں نئی ​​تفصیلات سامنے آئیں۔

ملکی وے کہکشاں میں ایک آزادانہ گشت کرتا ہوا بلیک ہول دریافت

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے Near-Infrared Camera (NIRCam) کیمرے کے ذریعے لی گئی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 50 کروڑ نوری سال کے فاصلےپرواقع کہکشاں کی ظاہری شکل ویگن کےپہیے کی طرح ہے جبکہ اس کے قریب ہی 2 چھوٹی کہکشائیں بھی موجود ہیں۔


کہاجاتا ہے کہ جب کہکشائیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو ان کی شکل اور ساخت بدل سکتی ہیں،کارٹ وہیل گلیکسی بھی بڑی اور ایک چھوٹی کہکشاں کے ٹکرانے کی وجہ سے وجود میں آئی۔

دنیا کا اب تک کا سب سے مختصر ترین دن ریکارڈ

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کارٹ وہیل گلیکسی اندرونی اور بیرونی 2 رنگین رِنگز(گول شکل) پر مشتمل ہے ۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ہبل ٹیلی اسکوپ بھی کارٹ وہیل گلیکسی کی تصویر لے چکی ہے لیکن دھول کی وجہ سے اس نے کہکشاں کے منظر کو دھندلا دیا تھا۔چونکہ جیمز ویب ایک انفراریڈ ٹیلی اسکوپ ہے، جو انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والی روشنی کو دیکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ نئی تصویر حاصل کرنے کیلئے اس کا استعمال کیا گیا۔

جیمز ویب کی تین ارب نوری سال دورموجود اختتامی مراحل سے گزرتے ستارے کی نشاندہی

دوسری جانب جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ زمین سے تین ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک انتہائی چمکیلی روشنی کی نشاندہی کی ہے۔ اس روشنی کے متعلق خیال ہے کہ یہ ٹیلی اسکوپ کا کسی ختم ہوتے ستارے کے دھماکے کا پہلا مشاہدہ ہے-

یہ خلائی دھماکا SDSS.J141930.11+5251593 نامی کہکشاں میں ہوا جہاں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے اس شے کی روشنی کی تصاویر عکس بند کیں جو پانچ دن کے عرصے میں مدھم ہوتی گئی تھی۔ یہ ایک اشارہ ہے جو سُپر نووا کے نظریے کو اجاگر کرتا ہے اس ممکنہ سُپر نووا کو ٹیلی اسکوپ کے نیئر انفرا ریڈ کیمرا سے عکس بند کیا گیا اس آلے کوکائنات کے ابتدائی ستاروں اور کہکشاؤں کی روشنی کی نشاندہی کے لیے بنایا گیا ہے۔

کسی خلائی شے کا کسی سیارے کے قریب سے گزرنا بھی نظامِ شمسی کو تباہ کر سکتا ہے،تحقیق

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین اسپیس ایجنسی (سی ایس اے) کا 10 ارب ڈالرز کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے جیمز ویب کا مقصد کائنات کےابتدائی دنوں (تقریباً ساڑھے 13 ارب سال) پہلے روشن ہونے والے ستارے کی کھوج لگانا ہے-

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو 2021 کے آخر میں خلا میں بھیجا گیا تھاخلائی دوربین جیمز ویب کا منصوبہ 30 سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچا اور اسے رواں صدی کے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

جیمز ویب کی نمایاں خصوصیات میں اس کا سب اہم حصہ 6.5 میٹر کے حجم کا آلہ انعکاس (Mirror) ہے جو کہ31 سال قبل بھیجی گئی ٹیلی اسکوپ ’ہبل‘ کے آلہ انعکاس سے 3 گنا بڑا ہے۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے کائنات کی سب سے پُرانی کہکشاں دریافت کرلی

Leave a reply