"زندگی تین دہائیاں قبل، جدت یا کچھ اور” تحریر: محمد حمزہ حیدر

0
56

آج ارادہ کیا کہ تین دہائیوں پہلے کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو بیٹھا لکھنے ورنہ پہلے سستی رہی ہے ایسے کاموں میں.
تو جی بات کچھ یوں ہے کہ "جدت” لفظ بڑا ظالم و تکلیف دہ ہے. جدت ہمارے نظریات اور روایات کا قاتل ہے. اسی جدت کے پیچھے لگ کر ہم اپنا آپ کھو چکے.
تین دہائیوں قبل جب انسان صحیح معنوں میں انسان تھا تو زندگی بڑی پر مسرت اور شیریں ہوا کرتی تھی. لوگ ملنسار، اعلیٰ اخلاق و روایات کے مالک تھے. ہمدردی اور نیک سیرتی کی مثال آج انکی نسبت ناپید ہے. ان جیسا اخلاص، ان جیسی شفقت اور ان جیسا احساس آج شاید ہی کسی کو دکھے وگرنہ یہ ناپید ہے. لوگ چاہے شہری تھے یا دیہاتی لیکن وہ ایک مکمل اور بہترین زندگی گزارتے تھے ایکدوسرے کے دکھ سکھ اور شادی یا وفات کے وقت ان کے سانجھی ہوتے گویا انہی کے گھر کے باسی ہوں. اسی طرح رہنے کو اپنے لیے ترقی اور خوشحالی گردانتے تھے. ان میں کوئی لالچ اور ہوس نہ تھی. الغرض ایک بہترین معاشرت کی تصویر تھے.
وقت پر لگا کر اڑا اور تیزی سے اڑتا چلا گیا، چونکہ وقت نے تو سفر کرتے رہنے ہے اور رکنا صرف اس مالک کے حکم سے ہے، لوگوں میں بدلاؤ آنا شروع ہوگیا لوگوں نے اپنا اقدار بدل لیا اور رہن سہن میں بدلاؤ آیا، لوگ سٹیٹس کی دوڑ میں شامل ہوگئے. پرانے لوگوں کے طریقوں کو تنگ نظری اور گھٹن زدہ قرار دیا. ان سے ہر ممکن کوشش کر کے جان چھڑانے لگے. ایکدوسرے سے ملنا ملانا تو دور دیکھنے کا وقت ختم ہوگیا. زندگی کے طور اطوار یکسر بدل گئے. حالات بدلے تو لوگ بدلے لوگ بدلے تو تہذیب بدلی یوں پورا معاشرہ بدل گیا.
گزشتہ تین دہائیوں کو دیکھیں تو آج کا یہ دور مادیت پرستی اور خود پسندی کا دور لگتا ہے جہاں ہر شخص گویا میراتھن ریس میں ہو اور اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا کر ایک پرسکون روح و جسم کی بجائے ایک مشین کی مانند ہو جائے اور ایک ایسی دوڑ جس کا کوئی دوسرا سرا نہیں اس میں شامل ہو. یہ جانتے ہوئے کہ کچھ باقی نہیں بعد میں یہ کچھ میرا نہیں رہنا.
گزشتہ دور کو جتنا پڑھا اور سنا تو اس کو ایک انمول اور مکمل پرسکون معاشرہ پایا. اب جب بھی کبھی اس پر سوچتا ہوں تو بس یہی سوچتا ہوں کہ آج میں اور اُس وقت میں صرف تین دہائیوں کا ہی تو فرق اور وقفہ ہے.
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
  احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

Leave a reply