تمام ایگزیکٹو ناکام، ضد سے حکومت نہیں چلتی، ایک ہفتے کا وقت دے رہے ہیں یہ کام کریں ورنہ..سپریم کورٹ برہم
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی،وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلزعدالت میں پیش ہوئے،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں،کوویڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی،کسی چیز میں شفافیت نہیں، ماسک اور گلوز کےلیے کتنے پیسے خرچ کرنے چاہیے؟اگر تھوک میں خریدا جائےتو2 روپے کا ماسک ملتا ہے ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں؟ سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں،وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے،رپورٹ میں نہیں بتایا گیا کہ ادارے کیا کام کررہے ہیں،ماسک اور گلوز کےلیے کتنے پیسے چاہیے؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری صحت سے استفسار کیا کہ کیا حاجی کیمپ قرنطینہ کا دورہ کیا گیا ہے؟ سیکرٹری صحت نے کہا کہ دورہ کیا تو حاجی کیمپ قرنطینہ غیر فعال تھا،جی میں وہاں گیا تھا، بیڈز اور پانی موجود تھا لیکن بجلی نہیں تھی، ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر4 افراد کو رکھا گیا،ضلعی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل میں قرنطینہ سنٹر منتقل کیا،گرلز ہاسٹل میں 48 کمرے ہیں،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بنیادی سہولیات کے بغیر پھر حاجی کیمپ میں قرنطینہ کیسے بنایا گیا؟حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ این ڈی ایم اے کی نمائندگی کون کررہا ہے؟ این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے لیکن اس میں کچھ واضح نہیں، ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سندھ حکومت ایک درخواست پر دکان اور فیکٹری کھولنے کی اجازت دے رہی ہے،سندھ حکومت پالیسی بنانے کی بجائے فیکٹری کھولنے کی اجازت دی رہی ہے،ملکی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں،لوگوں کا کاروبار اورروزگار چلا گیا ہے،ہم ،سیکریٹری صحت اور انتظامیہ والے تنخواہ دار ہیں تو کام چل رہا ہے،کاروباری حضرات بے روزگار ہوچکے ہیں،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومت کا وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دیں گے،پتہ ہے کہ صوبائی وزیر کیا کہہ رہے ہیں،یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بلکل آؤٹ ہے،دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں،
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت نے مساجد کھول دی ہیں،کسی جگہ پر ریگولیشنز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا،حکومت نے مارکیٹیں بند کر کے مساجد کھول دیں، کیا مساجد سے کورونا وائرس نہیں پھیلے گا؟ اگر فاصلہ رکھنا ہے تو سب جگہ پر رکھنا ہو گا،پالیسی کدھر ہے؟ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے،
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب میں 37 صنعتیں کھولی گئی ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 37صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پنجاب سے متعلق جو آپ کاغذ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے،میں خود پنجاب کا ہوں ، مجھے علم ہے وہاں صورتحال کیسی ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں، امپورٹ، ایکسپورٹ ،لمیٹڈ کمپنیز ،ہائی ویزاور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں،صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، چاروں صوبے اور آئی سی ٹی اپنی پالیسی سازی میں مکمل آزاد ہیں، کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ریوینیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صوبائی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وفاق سے تصدیق ضروری ہے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ 2014 کے قانون کے تحت کیا،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے،کاروبار ی سرگرمیوں پر وفاقی حکومت ٹیکس لیتی ہے،صوبے اس پر پابندی کیسے لگا سکتے ہیں؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پنجاب میں کورونا وائرس کی مریضوں کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں،پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ الارمنگ ہے،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے کاروباری مصروفیات روک دیں،صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں،
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے مرکز کی اجازت ضروری تھی،کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں،صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پورے ملک میں ابتر حالت ہے، سمجھ نہیں آرہی ملک میں کیا ہورہا ہے، ملک میں مکمل طور پر استحصال ہو رہا ہے، لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کیخلاف سازش کر رہی ہیں،
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت میں شفافیت کی بات کر رہے ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکتو ناکام ہو گئے ہیں، صوبوں میں تعاون کا آغاز ہونا چاہئے تھا، مسافر مال بردار ٹرکوں پر سفر کر رہے ہیں اور ان سے جہاز کے کرائے کے برابر کرایہ وصول کیا جا رہا ہے.کسی کو احساس نہیں کہ ایک ساتھ بیٹھیں اور بات کریں، کون ہے جو بات کرنے کو تیار نہیں
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں کورونا کے حوالے سے یکساں پالیسی بنائی جائے،یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ذاتی عناد ہے،حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے،اس معاملے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی، کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے،ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا،
قیدیوں کی رہائی کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا، بڑا حکم دے دیا
ٹرمپ کی بتائی گئی دوائی سے کرونا کا پہلا مریض صحتیاب، ٹرمپ نے کیا بڑا اعلان
کرونا کیخلاف منصوبہ بندی، پاکستان میں فیصلے کون کررہا ہے
پیسہ حقداروں تک پہنچنا چاہئے، حکومت نے یہ کام نہ کیا تو توہین عدالت لگے گی، سپریم کورٹ
کرونا سے نمٹنے کیلیے ناکافی اقدامات، چیف جسٹس نے لیا پہلا از خود نوٹس
ماسک سمگلنگ کے الزامات، ڈاکٹر ظفر مرزا خود میدان میں آ گئے ،بڑا اعلان کر دیا
ڈاکٹر ظفر مرزا کی کیا اہلیت، قابلیت ہے؟ عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ، چیف جسٹس
دو سال سے دھکے کھانے والے ڈاکٹر کو سپریم کورٹ سے حق مل ہی گیا
کرونا از خود نوٹس کیس، وزارت صحت نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی رپورٹ
کرونا وائرس، اخراجات کا آڈٹ ہو گا تو حقیقت سامنے آئے گی،سارے کام کاغذوں میں ہو رہے ہیں، چیف جسٹس
صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ، دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ٹیسٹنگ کٹس اور پی پی ایز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک اچھی اور وژینری لیڈر شپ کا فقدان ہے،وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے، اس روئیے سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے،وفاق میں بیٹھے لوگوں کو ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے ؟ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے،ہم سیلاب،زلزلے سے نکل آئے، اس مسئلے سے بھی نکل آئیں گے،انااور ضد سے حکومتی معاملات نہیں چلتے،
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں،اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں،