مذہبی نفرت انگیز مواد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے،قائمہ کمیٹی میں بحث

0
91

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی برائے اطاعات ونشریات کے اجلاسوں میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی عدم شرکت پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس لیا اور کہا کہ کمیٹی کے 90 فیصد اجلاسوں میں وفاقی وزیر اطلاعات نہیں آتیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تجویز دیتا ہوں کہ اس وزارت کا کام زیادہ ہے، ایک اور وزیر کو چارج دے دینا چاہئے ۔براڈکاسٹ کیلئے علیحدہ وفاقی وزیر ہونا چاہئے اور یہی حل ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت کو ایک اور وزیر کی ضرورت ہے کیونکہ صحافیوں کے پنشن اور تنخواہوں کے مسائل ہیں۔

سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف میاں جاوید لطیف کی 13 ستمبر 2022 کو پی ٹی وی پر نفرت انگیز گفتگو کا معاملہ کمیٹی میں زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس معاملے سے متعلق جواب اگر پہلے دے دیا جاتا تو سب تیاری کر کے آتے۔ جس پر ایم ڈی پی ٹی وی و ایڈیشنل سیکرٹری اطاعات ونشریات نے کہا کہ یہ تقریر نہیں پریس کانفرنس تھی۔ اس پریس کانفرنس کے انتظام میں پی ٹی وی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔پی ٹی وی پریس کانفرنس کیلئے پرائیویٹ چینلز کی درخواست پر کلین فیڈ دیتے ہیں۔ وزیر کے پریس کانفرنس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے نفرت انگیز مواد کو نشرکیا گیا۔نفرت انگیز کلپس بھی نشر کئے گئے۔نیشنل ایکشن پلان میں یہ بات طے ہوگئی کہ نفرت انگیز مواد ناقابل قبول نہیں ہوگا۔ مذہبی نفرت انگیز مواد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے، آپ لائیو فیڈ میں ڈیلے کر کے چلا سکتے تھے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ ٹرانسمیشن معمول کے مطابق ہوتی ہے پریس کانفرنس کے انتظام میں کوئی کردار نہیں ہے۔ سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ کسی کے مذہب پر تنقید اور غیر مسلم کہہ دینا قابل برداشت نہیں، میں اس کی تائید نہیں کرتا، اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔ سرخیاں جاوید لطیف نے نہیں لگائی جنہوں نے اچھالا ہے اس سے بھی پوچھنا چاہئے۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی یہی روایت رہی ہے جو کہ نہیں ہونی چاہئے، اس معاملے کی رپورٹ کمیٹی میں لازمی پیش ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ سرکاری ادارے کو یہ نہیں کرنا چاہئے۔ جس طرح ہم عمران خان کی باتیں نظر انداز کرتے ہیں آپ بھی کرلیا کریں۔جو کلپش چلے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور اس طرح کا عمل نہیں ہونا چاہئے تھا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ٹی وی پر مذہبی ہم آہنگی اور اخلاقیات کو فروغ دینے کے حوالے سے عمران خان نے کافی اقدامات اٹھائے ہیں۔اگر میری حکومت میں ایسی بات ہوئی ہوتی تو میں لازمی ایکشن لیتا۔ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ اس عمل کی تائید نہیں کی جا سکتی جب مجھے علم ہوا تو اس کو دوبارہ نشر نہیں کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے معاملے کی رپورٹ مرتب کرکے کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کسی کی بھی حکومت ہو اس طرح نہیں ہونا چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے ایم ڈی پی ٹی وی سے سوال کیا کہ جو کلپ چلا ہے وہ آپ کے چینل سے کس نے چلایا ہے؟۔ اس کی بھی تحقیق کر لیں کہ پی ٹی وی پر نفرت انگیز کلپس کس نے چلائے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ جب تحقیقات ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ کس نے کلپ چلایا ہے۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس کی اندرونی انکوائری کرائیں، سات روز کے اندر معاملے کے حوالے سے رپورٹ میں پیش کریں اور لائیو فیڈ کے دوران ڈیلے میکینزم کو بھی فعال بنائیں۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے عمران خان سے متعلق نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا کو بھی پرائیوٹ چینلز پر نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ پیمرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صرف دو چینلز نے مواد نشر کیا اور ان کو شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔چینلز کے ایڈیٹورئیل پالیسی میں مداخلت نہیں کرتے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی تقسیم کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے کمیٹی اجلاس میں سال2013 سے 2018 اور2018 سے 2022 اپریل تک کا ڈیٹا پیش کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کی تقسیم میں علاقائی چینلز کی ویور شپ کو کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ سرکار کو چاہئے کہ ان علاقائی چینلز کا بھی خیال کریں۔ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سندھ کے چینلز کو بھی حصہ نہیں ملتا۔ پی آئی ڈی کے پریس انفارمیشن آفسیر کمیٹی کو بتایا کہ جیو کو سال2013 سے2018 تک 62 کروڑ روپے ملے اور اے آر وائی کو 8 کروڑ روپے ملے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دونوں چینلز ایک ہی کیٹیگری میں آتے ہیں لیکن ریٹس میں اور اشتہارات دینے میں کیوں اتنا فرق ہے۔ حکام پی آئی ڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کیٹیگریز نہیں تھیں۔ اشتہارات کی تقسیم کے وقت سپانسرنگ ایجنسی کے نقطہ نظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔اگلی لسٹ میں علاقائی چینلز کی تفصیلات مہیا کردیں گے۔ سال2008 سے2013 میں اشتہارات کی تقسیم کار کا سسٹم الگ تھا۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اشتہارات کی تقسیم میں تضاد بہت زیادہ ہے ایسے دوبارہ نہیں ہونا چاہئے، میکیزم کو بہتر کریں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سال2008 سے2013 تک کے اشتہارات سے متعلق محکمہ جات سے ڈیٹا لے کر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی دور کا چینلز کو اشتہارات دینے کا ڈیٹا بھی پیش کیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کے حوالے سے میکیزم طے کیا جائے اور سیاسی بنیادوں پر اشتہارات کی بندر بانٹ نہیں ہونی چاہئے، ویورشپ کے مطابق اشتہارات کی تقسیم انصاف پر ہونی چاہئے۔بہت سال گزر گئے لیکن اشتہارات کی تقسیم کے میکینزم کے حوالے سے معاملات طے نہیں ہوئے، اگلی میٹنگ میں اس حوالے سے اندرونی کمیٹی کی رپورٹ کمیٹی میں پیش کریں۔

ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے دفتر میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر رپورٹ بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش گی۔یہ معاملہ سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے اٹھایا گیا تھا۔ ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ اس معاملے پر جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے اب جو کمیٹی فیصلہ کرے گی اس کو تسلیم کیا جائے گا۔انکوائری کر کے ذمہ داروں کا تعین کر یں گے۔سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ اگلی میٹنگ میں آپ بتائیں کہ ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان کے خلاف کیا کاروائی کی اگلی میٹنگ میں بتائیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ذمہ داران کو کمیٹی میں بلا کر ان کو بھی صفائی کا موقع دینا چاہئے۔رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کو بلا کر سننا چاہئے۔دونوں معاملے پر ذمہ داران کو بلائیں اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلی پنجاب کی تقریب حلف برداری پی ٹی وی پر براہ راست نشر نہ کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں بحث کی گئی۔ایوان صدر کے ڈپٹی پریس سیکرٹری قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوئے۔ڈپٹی سیکرٹری ایوان صدر نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی پر تقریب ونڈو میں دکھائی گئی، لیکن آواز نہیں تھی۔ایوان صدر پی ٹی وی پر انحصار کرتا ہے، سگنل ٹی وی یو پر دئیے گئے اور بتایا گیا کہ ڈی ایس این جی دستیاب نہیں ہے۔ ڈائریکٹر پی ٹی وی نیوز نے کہا کہ ڈی ایس این جی کیلئے پہلے درخواست آتی ہے جو کہ تحریری طور پر نہیں آئی تھی۔ڈی ایس این جی کے ساتھ50 لوگ ہوتے ہیں ان کی کلئیرنس میں ٹائم لگتا ہے۔ٹی وی یو کی وجہ سے سگنل کم ہونے اور آواز نہ آنے سے ونڈو میں وزیراعلی پنجاب کی حلف برداری کی تقریب دکھانی پڑی اورحلف برداری کی جگہ تبدیل ہونے سے بھی رکاوٹ آئی۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسے نہیں ہونا چاہئے، مستقبل میں احتیاط کرنی چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر ایوان صدر کو اس معاملے پر اعتراض نہیں تو اس معاملے کو ختم کردیتے ہیں، ورنہ ہم تہہ تک جائیں گے۔پریس سیکرٹری ایوان صدر نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے پر صدر مملکت کو تفصیلات سے آگاہ کیا تھا اور تحریری طور پر اس معاملے کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کردیں گے۔

سیلاب زدگان کی امداد کیلئے براہ راست ٹیلی تھون کی نشریات کو میڈیا چینلز پر رکنے کامعاملہ بھی کمیٹی میں زیر بحث آیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ چینلز نے اس حوالے سے بہتر کام کیا ہے۔ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کو کیوں بند کیا گیا؟۔ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہم نے سیلاب زدگان کیلئے لائیو ٹیلی تھون کو بالکل بند نہیں کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیلاب زدگان کیلئے پی ٹی آئی ٹیلی تھون کے ذریعے جو فنڈز اکٹھا کر رہی ہے اس میں وہ وفاق اور سندھ کو بھی دیں گے لیکن پی ٹی وی نے بھی اس پروگرام کو نہیں دکھایا۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے فلڈ ریلیف کیلئے بنائے گئے اکاونٹ کا بھی ہم نے اپنے ٹیلی تھون میں ذکر کیا، یہ معاملہ سیاست سے بالاتر ہے اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔اگر وزیراعظم عمران خان ہوتے تو اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کے ٹیلی تھون کو لازمی دکھاتے۔ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی بتائے کہ سیلاب زدگان کیلئے لائیو ٹیلی تھون کیوں نہیں نشر کی جا رہی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈی والا کی جانب سے پیش کئے گئے صحافیوں کے تحفظ کے ترمیمی بل 2022 پربحث محرک بل کے ہونے کی وجہ سے موخر کردیاگیا۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز عرفان الحق صدیقی، نسیمہ احسان، انور لعل دین اور مولا بخش چانڈیو نے شرکت کی- ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات و نشریات/ایم ڈی پی ٹی وی، چیئرمین پیمرا، پی آئی او پی آئی ڈی، کے علاوہ ریڈیو پاکستان اور اور ایوان صدر کے حکام بھی شریک ہوئے-

پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کب تک قانون بن کر نافذ ہوجائے گا؟ قائمہ کمیٹی میں بحث

اسلام آباد میں بھکاریوں کے خلاف 294 ایف آئی آر درج کی ہیں،یہ منظم گروہ ہے،پولیس حکام

ایف آئی اے کوسافٹ وئیراپڈیٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ،اب میں یہ کام کروں گی،خاتون اینکرز کا قائمہ کمیٹی میں بڑا اعلان

پولیس جرائم کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کے خلاف مقدمے درج کرنے میں مصروف

بیوی، ساس اورسالی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے الزام میں گرفتارملزم نے کی ضمانت کی درخواست دائر

سپریم کورٹ کا سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس،ہمارے خاندانوں کو نہیں بخشا جاتا،جسٹس قاضی امین

‏ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے خلاف غصے کا اظہار کرنے پر بزرگ شہری گرفتار

سوشل میڈیا چیٹ سے روکنے پر بیوی نے کیا خلع کا دعویٰ دائر، شوہر نے بھی لگایا گھناؤنا الزام

میں نے صدر عارف علوی کا انٹرویو کیا، ان سے میرا جھوٹا افیئر بنا دیا گیا،غریدہ فاروقی

صحافیوں کے خلاف مقدمات، شیریں مزاری میدان میں آ گئیں، بڑا اعلان کر دیا

Leave a reply