لاہور(آصف محمود) پاکستان میں بسنے والی خواجہ سرا کمیونٹی کا کہنا ہے ڈیجیٹل مردم شماری کے باوجود ملک کے اندر خواجہ سراؤں کی حقیقی تعداد کا تعین مشکل ہوگا،کیونکہ زیادہ ترخواجہ سراؤں کے پاس ” ایکس ” کیٹگری کے شناختی کارڈہی نہیں ہیں،خواجہ سراؤں کو آج بھی بعض عرب ممالک میں سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے، دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا کہنا ہے کسی بھی شخص کے لئے جنس کے ازخود تعین کا اختیاردرست نہیں ہے، ٹرانس جینڈرکمیونٹی میں گورو کے کردارکی بھی کوئی شرعی اورقانونی حیثیت نہیں ہے
ملک بھرمیں ڈیجیٹل مردم شماری جاری ہے ،ڈیجیٹل مردم شماری میں افراد کی جنس کی تین گیٹگریز رکھی گئی ہیں جن میں مرد، عورت اورخواجہ سرا کی کیٹگری شامل ہے۔ تاہم خواجہ سرا برادری سمجھتی ہے کہ جب تک نادرا کے ریکارڈ میں کوئی فرد بطور ٹرانس جینڈر رجسٹرڈ نہیں ہوگا وہ ازخود مردم شماری کے دوران اپنی جنس بطور ٹرانس جینڈر نہیں لکھ سکتاہے
فون پر دوستی، لڑکی کو ملنے گھر جانیوالے نوجوان کو پہنائے گئے جوتوں کے ہار اور کیا گیا تشدد
دورانِ مجلس عورتوں کے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتارنے والی ملزمہ گرفتار
طلبا کے ساتھ زیادتی کرنے، ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے والے سابق پولیس اہلکار کو عدالت نے سنائی سزا
لاہور میں 2 بچیوں کے اغوا کی کوشش ناکام،ملزم گرفتار
خاتون کی غیر اخلاقی ویڈیو وائرل کرنیوالا ملزم لاڑکانہ سے گرفتار
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے سرگرم اوراپنی کمیونٹی کی فوکل پرسن زعنائیا چوہدری نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا ” کوئی فرد خود کواسی وقت ٹرانس جینڈر لکھوا سکتا ہے اگراس کے پاس ایکس کیٹگری کا شناختی کارڈ ہوگا جبکہ خواجہ سراؤں کے لئے ایکس کیٹگری کا کارڈ اورپاسپورٹ بنوانا آج بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ والدین کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ ان کا کوئی بچہ خواجہ سرا ہے۔اسی طرح اکثرخواجہ سرا اپنے خاندان سے الگ ،دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں اس لئے ان کی فیملی ان کو قبول ہی نہیں کرتی ہے
لاہورسے تعلق رکھنے والی ایک اورمعروف آرٹسٹ اورخواجہ سرا جنت علی کہتی ہیں ایک تووالدین یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا کوئی بچہ خواجہ سرا ہے اور دوسرا خود کوئی خواجہ سرابچہ جواپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے وہ اپنی جنس سے متعلق بتاتا ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے اگرسچ بتایا تواسے گھرسے نکال دیا جائیگا اوراس کا خاندان اسے قبول نہیں کرے گا اس لئے وہ جھوٹ کے سہارے پروان چڑھتا ہے
خواجہ سراؤں کے مطابق یواے ای سمیت کئی عرب ممالک ایسے ہیں جہاں خواجہ سراؤں کو سفرکی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ اگرمردیا عورت کی کیٹگری والے پاسپورٹ کے ساتھ ان ممالک کا سفرکیا جائے توائیرپورٹ پر ان کے ساتھ انتہائی غیرمناسب سلوک کیا جاتا ہے اوربعض اوقات وہ لوگ ڈی پورٹ بھی کردیتے ہیں۔ زعنائیا چوہدری کے مطابق ان کے پاس چونکہ ایکس کیٹگری کا پاسپورٹ ہے تواس وجہ سے انہیں یواے ای کا ویزاہی نہیں مل سکا تھا
بعض خواجہ سرا ایکس کیٹگری کا شناختی کارڈ اورپاسپورٹ اس لئے بھی نہیں بنواتے کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اس طرح وہ عمرہ اورحج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب نہیں جاسکیں گے تاہم حال ہی میں خواجہ سراؤں کے ایک گروپ نے عمرہ کی سعادت حاصل کی ہے
خواجہ سرابرادری نے تجویزدی ہے کہ مردم شماری میں خواجہ سرابرادری کی حقیقی تعداد کا تعین کرنے کے لئے مردم شماری ٹیموں کے ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جائے اوراگرکوئی خاندان اپنے کسی بچے ،گھرکے کسی فرد کی جنس کو چھپاتا ہے تواس کیخلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ خواجہ سرابرادری کے مطابق ان کی کمیونٹی زیادہ ترگروپ کی شکل میں رہتی ہے اور ان کا گورو ہی ان کے لئے ماں باپ کا درجہ رکھتا ہے اس لئے مردم شماری میں ان کے گورو کو گھرکا سربراہ اور ان کے چیلوں کو گھر کے فرد کے طور پر رجسٹرڈ کیا جاسکتا ہے
تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کہتے ہیں خواجہ سرابرادری میں گورو کا جو تصور ہے اس کی کوئی شرعی اورقانونی حیثیت نہیں ہے۔ قبلہ ایاز نے بتایا کسی بھی فرد کے لئے اپنی جنس کے ازخود تعین کا کوئی اختیارنہیں ہے۔ ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن رائٹس رولز میں متعدد دفعات اور شقیں شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں، ٹرانس جینڈرز ایکٹ 2017 اور 2018 کی متعدد دفعات غیراسلامی ہیں، جو دفعات شریعت سے ہم آہنگ نہیں انہیں تبدیل ہونا چاہیے، جنس کے خود تعین کا اختیار درست نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے خود اختیار کردہ شناخت سے متعلق دفعات غیرشرعی قرار دیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خواجہ سراؤں میں گورو کا جودرجہ ہے اس کی کوئی قانونی اورشرعی حثیت نہیں ہے۔ گورو ،خواجہ سراؤں کے استحصال اورغلامی کی جدید شکل ہے، ریاست خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے ادارے قائم کرے اوروالدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو چاہے وہ خواجہ سرا ہی کیوں نہ ہوں انہیں قبول کریں۔