پہاڑوں پر پانی آتا ہے تو وہیں ذخیرہ کرنے کا انتظام ہونا چاہیے،قائمہ کمیٹی

نیلم جہلم منصوبے میں مرمت کے بعد منصوبے کی پیدا وار میں بہتر ی آئی ہے اور تقریبا سالانہ 50 ارب کی سالانہ آمدن ہو گی۔
0
46
cometisen

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید محمد صابر شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کی جانب سے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے صوبہ بلوچستان میں کچی کنال کی بحالی کے علاوہ،واپڈا ملازمین کی اپ گریڈیشن کے ٹائم سکیل کا معاملہ،کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں واپڈا کے حوالے سے دی گئی رپورٹ پر عملدرآمد، ڈسٹرکٹ حیدرآباد سندھ میں 15.19 ایکڑ زمین حاصل کرنے کے معاملات،نیلم جہلم منصوبے کے ٹنل میں پڑنے والے کریک،جنرل منیجر تربیلا کی جانب سے 2021 سے اب تک کی جانے والی تربیلا دیم منصوبے میں تقرریوں کے معاملات کی تفصیلات، ضلع ہرنائی بلوچستان کے علاقوں میں سیلابی بچاؤسے متعلقہ کاموں کے معاملات ،گڈوالیاں ڈیم کی لیکج کے حوالے سے انکوائری رپورٹ کے معاملات کے علاوہ مہمند ڈیم میں سیلاب کی وجہ سے پڑنے والے کریکس اور دیگر نقصانات اور ان کی اب تک کی مرمت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 31 مارچ2023 کو سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کی جانب سے اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے صوبہ بلوچستان میں کچی کنال کی بحالی کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے جس کا تعلق تین صوبوں سے ہے۔ کچی کنال سے ملحقہ علاقوں میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں اگر موثر حکمت عملی اختیار کی جائے تو اس پانی کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ سیکرٹری آبی وسائل نے کمیٹی کو بتایا کہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے بہت زیادہ پانی آتا ہے۔ صوبائی محکمہ پنجاب ایری گیشن نے کوہ سلیمان کے علاقے میں کام کرنا ہے۔ بہتر ہے کہ ان کی موجودگی میں معاملے کا جائزہ لیا جائے۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں محکمہ پنجاب ایری گیشن کو بریفنگ کے لئے طلب کرلیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کوہ سلیمان میں مسلسل بارشیں ہونا شروع ہو گئی ہیں بڑے سیلابی ریلے آتے ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ جب پہاڑوں پر پانی آتا ہے تو وہیں ذخیرہ کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ کچی کنال بار بار ٹوٹ جاتی ہے۔ سائفن بنائے جائیں، دریاؤں کے قریب بند بنائیں جائیں اور مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ کچی کنال بے شمار جگہوں پر سیلابی ریلے کی زد میں آجاتی ہے اس کا بند اوپر اٹھایا ہوا ہے۔ پانی کچی کنال کو ہٹ کرتا ہے۔جو اسٹرکچر ابھی بنا ہوا ہے وہ اس سیلابی پانی کو کنڑول نہیں کر سکتا،13 نالوں کا پانی آتا ہے اور ریلہ ایک لاکھ کیوسک تک ہو جاتا ہے۔ ایک جامع پلان کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومت پنجاب اور بلوچستان حکومت کو درخواست دی ہے کہ ایک جامع پلان دیں۔

واپڈا ملازمین کی اپ گریڈیشن کے ٹائم سکیل کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے جو پالیسی دی گئی ہے اس سے بہتر واپڈا کی ٹائم اسکیل اپ گریڈیشن کی اپنی پالیسی ہے جس پر 2001 سے عمل کیا جارہا ہے۔ نئی پالیسی سے ملازمین کا نقصان ہوگا۔

کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں واپڈا کے حوالے سے دی گئی رپورٹ پر عملدرآمد کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جو ہدایات دی گئی تھیں ان پر عملدرآمد کر لیا گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے کہا کہ گزشتہ کمیٹی اجلاس مورخہ18جولائی2023 کو کمیٹی کے ایجنڈا آئٹم 6 پر کہا تھا کہ تربیلا ڈیم T-iv اورT-v پاور ونگ کے ملازمین کو 30 فیصد الاؤنس مل رہا تھا جبکہ واٹرو نگ کے ملازمین اس الاؤنس سے محروم تھے۔کمیٹی نے ہدایت کی تھی کہ اس تضاد کو ختم کیا جائے اور برابر ی کی بنیاد پر الاؤنسز دیئے جائیں کیونکہ دونوں ونگ کے ملازمین ایک جگہ پر کام کر رہے ہیں۔جس پر وزارت آبی وسائل اور واپڈا حکام نے کہا تھا کہ ہم اس تضاد کو ختم کر یں گے اور سب ملازمین کو برابر الاؤنس دیئے جائیں گے۔ جبکہ آج کے ہونے والے کمیٹی اجلاس میں ان ہدایات پر عملدرآمد طلب کیا گیا تھا۔ جس پر وزارت آبی وسائل اور واپڈا حکام نے بتایا کہ کمیٹی کی ہدایات پر من وعن عملدرآمد کر لیا گیا ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ تربیلا ڈیم کام کرنے والے ہزاروں ملازمین میں کمیٹی کی ہدایت پر عملدرآمد کرنے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تربیلا ڈیم ملازمین نے چیئرمین واراکین کمیٹی کا شکریہ ادا کیا۔

ڈسٹرکٹ حیدرآباد سندھ میں 15.19 ایکڑ زمین حاصل کرنے کے معاملات کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پیسے عدالت میں جمع کر ا دیئے گئے ہیں۔ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو دینے ہیں کس کو نہیں یہ معاملہ عدالت میں ہے۔
نیلم جہلم منصوبے کے ٹنل میں پڑنے والے کریک کے حوالے چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید صابر شاہ نے کہا کہ اتنا بڑا منصوبہ تھا کس طرح اس جگہ کی نشاندہی نہیں کی جا سکی تھی۔ کیا مزید بھی ایسے نقصانا ت ہو سکتے ہیں۔ جب منصوبہ شروع کیا گیا تھا تو اس پر موثر کام کیوں نہیں کیا گیا۔جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم ٹنل کا یہ نقصان سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ جعفرافیائی مسئلے سے ہوا تھا۔ ٹنل کی 42 میٹر کی جگہ پر نقصان ہوا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کسی بھی منصوبے کو اگر 100 سالہ معیاد کے مطابق بنایا جائے تو خرچ زیادہ ہوتا ہے مگر معیار بہتر ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں 30 سالہ معیاد کے مطابق کم خرچ سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیلم جہلم منصوبے میں مرمت کے بعد منصوبے کی پیدا وار میں بہتر ی آئی ہے اور تقریبا سالانہ 50 ارب کی سالانہ آمدن ہو گی۔

جنرل منیجر تربیلا کی جانب سے 2021 سے اب تک کی جانے والی تربیلا ڈیم منصوبے میں تقرریوں کے معاملات کی تفصیلات سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تمام بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید صابر شاہ نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں مکمل تفصیلات بشمول میرٹ لسٹ میٹرک کے نمبر، ڈومیسائل، تعلیمی قابلیت و دیگر معلومات فراہم کی جائیں۔

ضلع ہرنائی بلوچستان کے علاقوں میں سیلابی ریلوں سے بچاؤسے متعلقہ کاموں کے معاملات کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومت کو پی سی ون تیار کرنے کا کہہ دیا ہے جسے ہی فراہم کر دیا جائے گا کمیٹی کو آگاہ کر دیں۔گڈوالیاں ڈیم کی لیکج کے حوالے سے انکوائری رپورٹ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قائمہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جارہا ہے۔ تین گیج اسٹیشن قائم کر کے ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے انکوائری کمیٹی بنانے کی بھی ہدایت کی تھی وہ بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ایک ماہ کا ٹائم دیا تھا انہوں نے جامع رپورٹ کے لئے مزید دو ماہ کا وقت مانگا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے کہا کہ انکوائری میں ان لوگوں کو شامل نہ کریں جو ڈیزائنگ میں شامل تھے۔ غیر متعلقہ لوگ شامل کیے جائیں۔ جس پر قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 30 سال کی سروس والے گریڈ 19 کے آفسر کو انکوائری کمیٹی کا ہیڈ بنایا گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈیم میں جو پانی آتا ہے وہ غائب ہو جاتا ہے لیکج کی نشاندہی کریں اورا س مسئلے کی رپورٹ بھی انکوائری کمیٹی کو فراہم کی جائے۔

مہمند ڈیم میں سیلاب کی وجہ سے پڑنے والے کریکس اور دیگر نقصانات اور ان کی اب تک کی مرمت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بہت بڑے سیلابی ریلے کی وجہ سے یہ مسئلہ آیا تھا اس وقت دریا پر ادارہ کام نہیں کر رہا تھا ٹنل پر کام کر رہے تھے۔ عارضی بند بنایا گیا تھا تین لاکھ کیوسک کا ریلہ آیا تھا۔ پوری ڈائی تباہ نہیں ہو ئی تھی بلکہ اس میں تھوڑا سا نقصان ہوا تھا۔

بھارتی آبی جارحیت،پاکستان کا پانی روکنے کے منصوبہ کی دی مودی سرکار نے منظوری

دیامر بھاشا ڈیم منصوبے سے دشمن کو تکلیف ہو رہی ہے،فیصل واوڈا

ڈیم مخالف ٹرینڈ ، بھارتی عزائم کا ٹرینڈ ہے ، بھارتی پراپیگنڈہ چند شرپسند عناصرپھیلا رہے ہیں‌، جویریہ صدیقی

ڈیموں کے مخالفین پاکستان کے دشمن ہیں: سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک

ڈیم مخالف مہم بے نقاب ، ہم نے مقامی لوگوں کو ڈیم کے خلاف بھڑکایا، بھارتی جنرل کا اعتراف

Leave a reply