کابینہ ارکان پر کرپشن کے الزامات ،خود کیسے اپنے حق میں رولز بدل سکتے ہیں؟سپریم کورٹ

0
51
سندھ حکومت نے حلقہ بندی کیخلاف ایم کیو ایم کی درخواست کی مخالفت کر دی

کابینہ ارکان پر کرپشن کے الزامات ،خود کیسے اپنے حق میں رولز بدل سکتے ہیں؟سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں تفتیشی اداروں میں حکومتی مداخلت کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹس کو سے متعلق جو آرڈرہم نے کیے وہ قائم رہیں گے ،آپ ای سی ایل کی لسٹ سے متعلق رپورٹ پیش کریں،ہم چاہتےہیں کہ قانون کی عمل داری ہو،ہم ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرینگے،ہم ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کررہے، ایسا کوئی شخص جس کے خلاف مقدمہ ہو وہ ملک سے باہر نہیں جائیگا،ہمیں ایف آئی اے کی رپورٹ کے بارے میں بتایا جائے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ای سی ایل رولز کی سیکشن دو میں کیسے ترمیم کی گئی؟ کیا ترمیم کرتے وقت متعلقہ اداروں سے مشاورت کی گئی؟کرپشن سمیت دیگر چیزوں کو نکال کر رولز تبدیل کر دیئے گئے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ وہ لوگ کیسے ای سی ایل رولز بدل سکتے جو خود مستفید ہوں ، جن کابینہ ارکان پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ خود کیسے اپنے حق میں رولز بدل سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ نے ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں پر تشویش کا اظہار کیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 22اپریل کو ای سی ایل رولز میں تبدیلی کی گئی ہم ایگزیکٹوز کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرینگے،وہ نام نکالے گئے جن پرکرپشن اورٹیکس چوری کے مقدمات تھے،ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے رولز تبدیلی کا اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز تبدیلی پر کابینہ سے منظوری کے نوٹیفکیشن میں یہ لکھا گیا اطلاق ماضی سے ہوگا؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ رولز تبدیلی سے کس کس کو فائدہ ہوا؟ مقدمات کا سامنا کرنے والے وزراکی جانب سے رولز تبدیلی کی منظوری مفادات کا ٹکراؤ ہے، تفصیلات فراہم کریں کہ کابینہ میں شامل کن اراکین کو فائدہ پہنچا؟الزام کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل وزیر خود کو الگ کر سکتا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کا کہنا ہے 174 نکالے گئے ناموں سے قبل ہم سے مشاورت نہیں کی گئی،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن دو پڑھیں، رولز کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر باہر نہیں جا سکتے، کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 120دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے روز سے ہوگا،عدالت نے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معلوم ہے کہ وفاقی وزرا پر ابھی صرف الزامات ہیں،کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اپنے فائدے کیلئے ملزم کیسے رولز میں ترمیم کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ملزم وزرا کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیاسرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جا سکتی ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی انفرادیت کے مطابق تفصیلات نہیں چاہتے ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد ریویو کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا،ممبران کا نام ای سی ایل میں ہونا اور رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکراو نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا، کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہے، انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے، ریاست کے خلاف کارروائیوں پر سپریم کورٹ کارروائی کرے گی، عرفان قادر نے کہا کہ میں وزیر اعظم شہباز شریف کی نمائندگی کر رہا ہوں مجھے سنا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ تحریری طور پر ہمیں دلائل دیں ایسے نہیں سن سکتے،عرفان قادر نے کہا کہ اہم کیس ہے،دو جماعتوں میں کشیدگی ہے عدالت بھی بیچ میں ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے،

وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے کی رپورٹ پر بحث کی گئی ،عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات سےکور کیا گیا ،وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کومعطل کیا بظاہر ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ،جن سماعتوں کی عدم پیشی پر پراسیکیوٹرز معطل ہوئے وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پراسیکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہو نا ہوں آپ فارغ ہیں؟ پراسیکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، انویسٹی گیشن افسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا،انویسٹی گیشن افسر تبدیل ہونے کے مہینہ بعد بیمار ہوا،

سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ،عدالت نے ڈائریکٹر لا آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل بھی ریکارڈ سمیت طلب کر لیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی،آرٹیکل 248 وزراء کو فوجداری کارروائی سے استثنٰی نہیں دیتا،چاہتے ہیں نظام قابل اعتماد انداز میں چلے، اعلیٰ حکام کیخلاف مقدمات میں مختلف سلوک زیادہ نوٹس میں آتا ہے،

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے مقدمات میں کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا وزیراعظم پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی،وزیراعظم سمیت کسی نے کوئی استثنیٰ نہیں مانگا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا مقص کسی مقدمے کو تیزی سے چلانا نہیں ہے،سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی

پولیس پہنچی تو میاں محمود الرشید گرفتاری کے ڈر سے سٹور میں چھپ گئے

پاکستان کی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے مودی کے دفتر میں خصوصی سیل قائم

درخواستیں دائر کرکےآپ بھی اپناغصہ ہی نکال رہے ہیں،عدالت کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ

کیا آپ کو علم ہے کہ سپریم کورٹ کے ملازمین بھی نہیں پہنچ سکے،عدالت

کارکن تپتی دھوپ میں سڑکوں پرخوار،موصوف ہیلی کاپٹر پرسوار،مریم کا عمران خان پر طنز

لانگ مارچ، عمران خان سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مقدمہ درج

Leave a reply