آرٹیکل 63 اے کی تشریح ،سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سنا دیا

0
31
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

آرٹیکل 63 اے کی تشریح ،سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ سنا دیا

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنا دیا،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے اکیلا لاگو نہیں ہوسکتا ،فیصلہ 2-3 کی نسبت سے دیا گیا، فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ دیا فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ دیا ،فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کو سیاسی میدان میں تحفظ فراہم کرتا ہے،آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کو سیاسی میدان میں تحفظ فراہم کرتا ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں، انحراف کرنا سیاست کیلئے کینسر ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ منخرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا ریفرنس میں انحراف پر نااہلی کا سوال بھی پوچھا گیا، اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے،ریفرنس کا چوتھا سوال بغیر جواب کے واپس کرتے ہیں ،

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی تاحیات نااہلی کی درخواستیں خارج کر دیں

عدالت میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ پڑھا گیا اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ 3ججز کی رائے سے ہم متفق نہیں ہیں،آرٹیکل 63 ایک مکمل شق ہے،آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کے بعد اپیل کا حق ہوتا ہے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات پر رائے نہیں دے سکتے،

چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی تھئ 21 مارچ 2022 کو صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا اب تک ریفرنس پر لارجر بینچ نے 20 سماعتیں کیں وکلاء اور دیگر افراد کمرہ عدالت پہنچ گئے

سپریم کورٹ اور اطراف میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے، عدالت کے کمرہ نمبر ایک کے باہر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی سپریم کورٹ پارکنگ کو جانیوالے ایک راستے کو سیل کردیا گیا اعلی پولیس افسران سمیت پولیس کی بھاری نقری تعینات کردی گئی ، 5رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال تھے بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خیل شامل تھے بینچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل بھی شامل تھے

قبل ازیں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہوئی تھی، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کو ڈسٹرب نہ کریں ،اگر آپ دو منٹ بات کرنا چاہے ہیں، توہم یہاں بیٹھے ہیں،بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے 10منٹ چاہیے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ،صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے ساڑھے 5 بجے سنائیں گے،

قبل ازیں ن لیگی وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے تحریری گزارشات جمع کرادیں مخدوم علی خان نے تحریری دلائل میں عدالت سے مہلت مانگ لی، ن لیگی وکیل کا کہنا تھا کہ حالات تبدیل ہو گئے حالات کی تبدیلی کے بعد مجھے موکل سے نئی ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اےایک مکمل کوڈ ہے؟ کیا آرٹیکل63 اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے ووٹ شمار ہو گا؟ا عدالت ایڈوائزی اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے،صدارتی ریفرنس اور قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کروں گا،صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ پر رائے مانگی جاسکتی ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کو اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں،کیا آپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملی ہے،اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آچکا ہے، اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا جو پہلے تھامیں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ ہر رائے مانگی جاسکتی ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا ہے،بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ہدایت پر فائل ہوا،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا یہ حکومت کاموقف ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے،سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے انکے وکلا موجود ہیں صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا، قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں، آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے،آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے،مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا، تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ آگے نکل چکا ڈیڑھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے،

ایک ہزار سے زائد خواتین، ایک سال میں چار چار بار حاملہ، خبر نے تہلکہ مچا دیا

ایک برس میں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے کس ملک میں خودکشی کی؟

فرار ہونیوالے ملزمان میں سے کتنے ابھی تک گرفتار نہ ہو سکے؟

طالب علم سے زیادتی کر کے ویڈیو بنانیوالے ملزم گرفتار

ملازمت کے نام پر لڑکیوں کی بنائی گئیں نازیبا ویڈیوز،ایک اور شرمناک سیکنڈل سامنے آ گیا

200 سے زائد نازیبا ویڈیو کیس میں اہم پیشرفت

شادی کے جھانسے میں آ کر تعلق قائم کر لیا، اب بلیک میل کیا جا رہا،سٹیج اداکارہ

آرٹیکل تریسٹھ اے اہم ایشو،رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں،چیف جسٹس

Leave a reply