آزادئ اظہارِ رائے یا کُچھ اور تحریر: ماریہ ملک

آزادئ اظہارِ رائے یا کُچھ اور تحریر: ماریہ ملک

آزادئ اظہارِ رائے یا کُچھ اور

کُچھ وقت سے پاکستان میں چند مخصوص اداروں کے چند لوگوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے ایک انتہائی اہم عسکری ادارے کے خلاف مہم جوئی اور الزام تراشی پر مبنی بیانات، تقریریں اور سوشل میڈیا پر کمپین جاری کی گئی ہے کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یہاں تک کہ جب اس مہم کو بھارت کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور اُن صحافیوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے جو پاکستان کے اہم اداروں پر بغیر ثبوت کے الزام تراشی کرتے ہیں۔ تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب مہم باقائدہ بیرونی ایجنڈوں کے تحت عمل میں لائی گئی ہے

بھارت پاکستان کے اندر ہر وہ حربہ استعمال کرتا ہے جس سے پاکستان میں سیاسی طور پر محاذ آرائی قائم رہے اور پھر معاشی طور پر پاکستان کو بحرانی صورت حال میں مبتلا رکھا جا سکے اس سلسلے میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” ہمیشہ کی طرح اپنے مشن پر کام کر رہی ہے پاکستان میں صحافت کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ بھارتی میڈیا کر رہا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ ایک منظم سازش ہے جس کا جال اب بنُنا جا رہا ہے اس میں بھارت کا کردار کلیدی ہے۔

پاکستان پوری مسلم امہ میں واحد ایٹمی قوت ہے اور پھر پاکستان چین کے ساتھ مل کر CPEC کے تحت جس معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے اس سے خطے میں پاکستان کو منفرد حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سفارتی کامیابیاں ملی ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلم ریاستوں کی مشترکہ سفارت کاری ہے جو کہ اقوام متحدہ میں دیکھی گئی ہے اس میں پاکستان کا کردار بڑا واضح ہے۔

کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی سفارت کاری اقوام عالم میں اعلیٰ حیثیت سے ہمکنار ہوئی ہے پاکستان کا موقف تسلیم کیا جانے لگا ہے جو کہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ افواجِ پاکستان جس کو اب پوری دنیا میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان مخالف قوتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ پاکستان نے جس طریقے سے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جس طرح دہشت گردوں اور شدت پسند عناصر کا خاتمہ کیا ہے اس میں افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ مہارت ہی ہے جو کہ پاکستان کو محفوظ بنائے ہوئے ہے۔ برطانوی اور امریکی افواج کے اعلیٰ افسران بڑے واضح الفاظ میں افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔

چند مخصوص صحافیوں اور این جی اوز نے جس طریقے سے ایک حساس ادارے کے خلاف اپنی مہم شروع کر رکھی ہے یہ ریاست پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے۔ جو یقینا غیر ملکی ایجنڈے کی کڑی ہے جو کہ دیگر مسلم ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں-

آؤ ذرا تھوڑا ماضی میں جھانکیں کہ جب سرزمین پاکستان پر امریکی افواج نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو جان بحق کیا جہاں اس فوجی کارروائی کو پاکستان کی قومی سلامتی پر بڑا حملہ قرار دیا گیا وہیں یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی لیکن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس آپریشن پر امریکی صدر بارک حسین اوباما کو مبارکباد دی تھی۔

بارک حسین اوباما اپنی کتاب A Promised Land کے صفحہ نمبر 696 پر اس آپریشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے پاکستان کی سرحدی حدود کی ہونے والی خلاف ورزی کے تحت ہونے والے اُسامک بن لادن کی ہلاکت والے اس آپریشن کے بعد جب صدر آصف علی زرداری کو فون کیا تو میرا خیال تھا کہ میری یہ فون کال انتہائی مشکل ہو گی اور مجھے تلخ الفاظ سننے کو ملیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ آصف علی زرداری نے ہمارے اس آپریشن پر ہمیں مبارکباد دی اور امریکی افواج کی تعریف کی۔

میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر بل کلنٹن سے پاکستان میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کی غرض سے امریکی حمایت مانگتے رہے اور ساتھ ہی وزیر اعظم ہائوس میں امریکی فوجی کمانڈوز کی کمانڈ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ کسی بھی فوجی بغاوت کی صورت میں وہ امریکی کمانڈوز ان کی حفاظت کر سکیں اور فوجی مداخلت کو ناکام بنانے میں کارگر ثابت ہو سکیں۔

یہ وہ حقائق ہیں جو کہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی قیادت بیرون الاقوامی دباؤ کے تحت اپنی پالیسی مرتب کرتی تھی لیکن اب پاکستان بدل رہا ہے۔ پاکستان نے ملکی مفاد میں پالیسی بنانا شروع کر دیا ہے۔ حالیہ پاکستانی فلسطین/اسرائیل معاملے پر پاکستانی سفارتکاری نے اسرائیل کو حملے روکنے پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ اقوامِ متحدہ کو اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔

پاکستان کے اِن تمام اقدام کے ہیشِ نظر پاکستان دُشمن اقوام بلخصوص ہندوستان اور اسرائیل پاکستان میں اپنے ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں اور اداروں کو کمزور کرنے کی سازش پر کام کر رہے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور قومی اداروں پر بے جا کیچڑ نہ اچھالا جائے اور ساتھ ہی ابن الوقت اور بدعنوان حکمرانوں کی خاندانی اجارہ داریوں سے نجات حاصل کرکے حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کی جائے اور تمام کرپٹ عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ الله کریم پاکستان کو مضبوط، خودمختار اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔ آمین

تحریر: ماریہ ملک

Leave a reply