نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ کل
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا،جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل ہیں ،جسٹس حسن اظہر رضوی بھی پانچ رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں ،بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوئے تھے،وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے،رجسٹرار آفس نے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے
عمران خان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا یا تھاجس میں کہا تھا کہ کسی شخص کی کرپشن بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کرنا عوامی مفاد میں نہیں، کرپشن معیشت کے لیے تباہ کن اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، مجھ سے دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم کا فائدہ آپ کوبھی ہو گا مگر میرا مؤقف واضح ہے یہ میری ذات کا نہیں ملک کا معاملہ ہے،اسی طرح دبئی لیکس پر کوئی تحقیقا ت نہیں کی گئیں جس میں مختلف پبلک آفس ہولڈرز اور ان لوگوں کی آف شور جائیدادوں کا انکشاف ہوا جنہیں سرکاری خزانے سے ادائیگی کی جاتی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی کو یہ ظاہر کرنا چاہیئے کہ انہوں نے دبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم کیسے کمائی اور کن ذرائع سے بیرون ملک بھیجی ،نواز شریف، زرداری خاندان، راؤ انوار اور کئی سابق جرنیلوں کی جائیدادیں بھی بے نقاب ہو چکی ہیں، نیب یا ایف آئی اے کو ان کیسز کی فوری انکوائری کرنی چاہیئے تھی لیکن نیب ایسا نہیں کر رہا کیونکہ انہیں میرے خلاف خصوصی طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، انصاف کا یہ منتخب نفاذ اس بدعنوانی کا واضح اشارہ ہے جو ہمارے نظام میں جڑ پکڑ چکی ہے،اگر کسی کے بیرون ملک اثاثہ جات ہوں تو ان کی تفصیلات پہلے ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی لیکن اس کو بھی ختم کردیا گیا، اس سے پہلے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری فرد پر تھی کہ ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مماثل ہو، نئے قانون کے تحت نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیسہ کرپشن کے ذریعے کمایا گیا، پبلک آفس ہولڈرز کی آمدنی کے ذرائع معروف ہیں، اور اگر کوئی رقم ان کے خاندان یا ملازمین کے نام ظاہر ہوتی ہے، تو ان سے اس کی اصلیت ثابت کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا کرپشن سے پاک پاکستان مزید سرمایہ کاری کو راغب کرے تاہم ان ترامیم کا مقصد ملکی اداروں کو کمزور کرنا اور طاقتوروں کو بچانا ہے، سپریم کورٹ کو ان سب معاملات کو مد نظر رکھنا چاہیے، پارلیمنٹ کو قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کرنی چاہیئے، نیب اگر اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے تو ترامیم اسے روکنے کی حد تک ہونی چاہئیں، اختیار کے غلط استعمال کی مثال میرے خلاف نیب کا توشہ خانہ کیس ہے، نیب نے میرے خلاف کیس بنانے کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کو 3 ارب 18 کروڑ کا بنا دیا۔
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز
جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا
میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہوگا،چیف جسٹس
قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش
نیب ٹیم توشہ خانہ کی گھڑی کی تحقیقات کے لئے یو اے ای پہنچ گئی،