کشمیری صحافیوں کے خلاف خطرناک سازشیں عروج پر: بھارتی فوج اورپولیس صحافیوں کومار رہی ہے:اقوام متحدہ

0
38

جنیوا:کشمیری صحافیوں کے خلاف خطرناک سازشیں جاری،بھارتی فوج اورپولیس آوازکودبا اور صحافیوں کومار رہی ہے :اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر Mary Lawlorنے کشمیری صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی متعدد کارروائیوں کے بارے میں بھارت کیساتھ اپنی مراسلت عام کر دی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ مراسلت بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے 2 صحافیوں قاضی شبلی اور آکاش حسن اور بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن چندر بھوشن تیواری کو ہراساں کرنے کے بارے میں تھی۔میری لالر نے یہ مراسلہ رواں برس یکم اکتوبر کو بھارتی حکومت کو بھیجا تھا۔

مراسلے میں کشمیری صحافی قاضی شبلی کے گھر پر چھاپوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قاضی شبلی ضلع اسلام آباد میں ایک نیوز ویب سائٹ کشمیریت کے ایڈیٹر ہیں۔ رواں برس6 اگست کو پولیس نے قاضی شبلی کے گھر کی تلاشی لی جب کہ وہ وہاں نہیں تھے۔ پولس زبردستی تالہ توڑ کر شبلی کے گھر میں داخل ہوئی اور کھڑکیوں کے شیشوں، ایک حفاظتی کیمرہ اور دیگر کئی اشیاءکی توڑپھوڑ کی۔

میری لالر نے اپنے مراسلے میں کہاکہ چھ اگست کو ہی پولیس نے شبلی کے ایک رشتہ دار اور دادی کے گھروں کی بھی تلاشی لی۔ تلاشی کی ان کارروائیوں سے چند گھنٹے قبل” کشمیریت “نے 2017 کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر دوبارہ پوسٹ کیا تھا،جس میں ایک کشمیری نوجوان کے بارے میں بتایا گیا تھا جسے بھارتی فورسز نے قتل کر دیا تھا۔ مراسلے میں مقبوضہ جموںوکشمیر کے ایک فری لائنسس صحافی آکاش حسن کا بھی ذکر کیا گیا جو مقبوضہ علاقے میں بڑھتی ہوئی بھارتی فوجی موجودگی اور وہاں کے شہریوں پر فوجیوں کی کڑی نگرانی کے بارے میں حالیہ برسوں کے دوران رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ رواں برس17 جولائی کوجب وہ رات 9 بجے کے قریب گھر جا رہے تھے تو ضلع پولیس نے اسلام آباد میں انکی گاڑی روک دی اور ایک پولیس افسر نے انہیں مبینہ طور پرگریبان سے پکڑا اور انکے چہرے اور جسم پر ڈنڈے برسائے۔مراسلے میں کہا گیا کہ حسن نے بعد ازاں حملے کی تفصیلات اور اپنے زخمی ہونے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔ واقعہ کے کچھ دیر بعد ضلع اسلام آباد کی پولیس کے ایک سپرنٹنڈنٹ نے حسن سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ واقعہ کی تحقیقات کی جائیں گی۔ تاہم آکاش حسن کو ابھی تک کسی بھی تحقیقات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ۔

مراسلے میں کہا گیا کہ یہ چھاپے جموں وکشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی ایک واضح مثال ہیں۔مراسلے میں بھارتی ریاست بہار کے صحافی چندر بھوشن تیواری کا بھی ذکر کیا گیا جو مبینہ پولیس بدعنوانی کو بے نقاب کر تے رہے ہیں۔چندر بھوشن تیواری ریاست بہار کے کیمور ضلع میں روزنامہ ہندی اخبار گیان شیکھا ٹائمز کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اخبار کے لیے وسیع تر مسائل بشمول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ بھارتی پولیس نے انہیں بھی بے رحمی سے مارا پیٹا۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ شکایات کی تحقیقات اور پیروی کی کمی اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ بھارتی پولیس فورسز میں بدعنوانی افسروں تک ہی محدود نہیں رہی ہے جن کے بارے میںاطلاعات ہیںکہ وہ رشوت لیتے ہیں۔ ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ صحافیوں کے خلاف بلاجواز حملے بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر اظہار رائے کی آزادی اور مسائل کے بارے میں رپورٹنگ کو روکنے کی کوشش ہو سکتے ہیں ۔

Leave a reply