دہلی میں ہونیوالے فرقہ وارانہ فسادات کے ملزمان باہر گھوم رہے ہیں جب کہ بے قصور جیل میں قید ہیں اور انہیں کئی طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق شمال مشرقی دہلی میں گزشتہ سال ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ مبینہ نقصان مسلمانوں کا ہوا تھا، لیکن انتظامیہ نے مسلمانوں پر ہی دہلی فرقہ وارانہ فسادات کا الزام عائد کیا۔ جس کے ساتھ ہی پولیس نے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع کی اور ان نوجوانوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج میں پیش پیش تھے۔
گرفتار نوجوانوں میں ایک نام اطہر خان کا بھی ہے جو چاند باغ میں ہورہے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج میں نظامت کے فرائض انجام دے رہا تھا، حالانکہ ان کے ساتھ احتجاج میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے لیکن اطہر کو اس کے مذہب کی بنیاد پر موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ایک برس قبل سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔
اس ضمن میں اطہر کی والدہ نے ساوتھ ایشین وائر کو بتایا کہ دو مہینے تک شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج پُرامن انداز میں جاری تھا لیکن کپل مشرا کے نفرت انگیز بیان نے دہلی میں فساد برپا کردیا۔
حکومت کے خلاف احتجاج ،وزیراعلیٰ کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا
کسانوں کا بھارت بند، ٹرین روک دی ،احتجاج جاری
کسانوں کے احتجاج میں شامل خاتون نے لگایا مودی پر سنگین الزام
مودی سرکار کی تجویز نامنظور،کسانوں نے دوبارہ بڑا اعلان کر دیا
مر جائیں گے لیکن گھر نہیں جائیں گے، بھارت میں کسانوں کا اعلان
نہ تھکیں گے، نہ رکیں گے،بھارت میں کسانوں کا احتجاج جاری، بھوک ہڑتال شروع
کسان رہنماؤں کو قتل کروانے کی مودی سرکار کی سازش بے نقاب
کسان ٹریکٹر مارچ روکنے کیلئے فوج تعینات، کسانوں کا بھی مودی کو دبنگ پیغام
ایک برس بعد اب اطہر کے والدین اس کے واپس گھر آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ حالانکہ ایک معاملے میں اطہر کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے اسی لیے انہیں یقین ہے کہ جلد ہی اطہر جیل سے رہا ہوکر گھر واپس لوٹے گا۔
اطہر کے والد بتاتے ہیں کہ کپل مشرا کو اسمبلی انتخابات میں کامیابی دلانے میں اطہر کا اہم کردار تھا لیکن جب ان کے بیٹے نے کپل مشرا کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تو اس بات کا غصہ دہلی فسادات کے بعد اس کی تصویر کو ٹویٹر کے ذریعے وائرل کرکے لیا، اس کے بعد ہی پولیس نے اطہر کو پریشان کرنا شروع کیا اور بعد ازاں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا