امریکا میں 180 لاکھ ڈالرز مالیت کی غیرقانونی ای سگریٹس کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام
لاس اینجلس: امریکا میں سیکورٹی اہلکاروں نے چین سے 180 لاکھ ڈالرز مالیت کی غیرقانونی ای سگریٹس کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی۔
باغی ٹی وی:”اے پی” نے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے بتایا کہ لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں 3 روزہ آپریشن کے دوران سیکورٹی اہلکاروں نے ای سگریٹس مصنوعات کی 41کھیپوں کو ضبط کیا جن کی مالیت مجموعی طور 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تک پہنچتی ہے-
ایف ڈی اے کے مطابق غیرقانونی مصنوعات میں سرفہرست برانڈز جیسے Elf Bar بھی شامل ہیں جن پر ایف ڈی اے کی جانب سے پابندی عائد ہے۔ ایف ڈی اے نے اپنے بیان میں کہا ان غیر قانونی ای-سگریٹس مصنوعات کو تباہ کردیا جائے گا۔
ایف ڈی اے نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ کئی مصنوعات کو کھلونوں، جوتوں اور دیگر گھریلوں ساز و سامان کے طور پر جان بوجھ کر نشان زد کیا گیا تھا تاکہ کسٹم کی جانچ سے بچا جاسکے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک بھی 5000 کا جعلی نوٹ پہچان نہ سکے
ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے جائزہ لینے والے عوامی ریکارڈ اور عدالتی دستاویزات کے مطابق، ایلف بار اور دیگر چینی ای سگریٹ بنانے والوں نے بار بار کسٹم کو چکما دیتے ہوئے اور ٹیکسوں اور درآمدی فیسوں سے بچتے ہوئے کروڑوں ڈالر کی مصنوعات درآمد کی ہیں،ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ ڈسپوزایبل vapes بنانے والے اپنی ترسیل کو معمول کے مطابق "بیٹری چارجرز”، "فلیش لائٹس” اور دیگر آئٹمز کے طور پر غلط لیبل لگاتے ہیں، جس سے ان مصنوعات کو روکنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے-
دوسری جانب لندن میں لاک ڈاؤن کے دوران گھروں سے کام کے دوران لوگوں نے سگریٹ نوشی ترک کرنا چھوڑ دی، یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق کورونا کی وبا کے دوران ترک نوشی کی شرح منجمد ہو گئی تھی اور پہلے سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں نے تمباکو نوشی شروع کر دی تھی، ڈیٹا کے مطابق کورونا سے قبل ترک سگریٹ نوشی کی شرح 5.2 فی صد لیکن اس میں 0.3 فی صد سالانہ شرح سے کم ہوتی گئی۔
کوئی جو بھی الزام لگائے اس کی پرواہ نہیں ہے، کیونکہ کسی سیاسی پارٹی سے کوئی دلچسپی نہیں
ریسرچرز کا کہنا ہے کہ کم وسیلہ لوگوں نے وبا کے دوران سگریٹ نوشی ترک کرنے کی فوری ضرورت کو محسوس کیا لیکن متمول اور منیجریل عہدوں پر کام کرنے والوں نے کام کے دبائو کے سبب سگریٹ نوشی بڑھا دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران کم وسیلہ کا کم تنخواہ والے لوگوں نے زیادہ مالی دبائو محسوس کیا جس کی وجہ سے سگریٹ نوشی جاری رکھنا ان کیلئے مشکل ہوگیا تھا۔
وبا کے دوران معمول کے مطابق کام کرنے والے زیادہ متاثر نہیں ہوئے اور انہوں نے گھروں سے کام شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ تنہائی محسوس کرنے لگے اور ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوئی اس کی وجہ سے انہوں نے سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش نہیں کی، اسٹدی میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ترک سگریٹ نوشی کی مہم دوبارہ شدت کے ساتھ چلائے تاکہ معاشرے کا متعمول طبقہ بھی سگریٹ نوشی ترک کرنے کی جانب مائل ہوسکے۔
اے این پی کے رہنما ساتھیوں سمیت ن لیگ میں شامل
یونیورسٹی کالج لندن کی سارہ جیکسن کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی میں اضافے کی شرح گزشتہ 20سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی۔ ریسرچرز کے مطابق جون 2017 میں انگلینڈ میں تمباکو نوشوں کی شرح 16.2 فی صد تھی اور وبا شروع ہونے سے قبل یہ شرح کم ہو کر 15.1 فی صد رہ گئی تھی اور اگست 2022 تک اس میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
پروفیسر جیمی براؤن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 2008 کے بعد پیدا ہونے والوں کو سگریٹ فروخت کرنے کو جرم قرار دینے کی تجویز پر عمل سے 2030 تک ہم سگریٹ نوشی ختم کرنے کے قریب تر پہنچ جائیں گے۔