فیک نیوز اور معصوم زندگیاں تحریر محمد ناصر بٹ

0
91

@mnasirbuttt

مجھے یاد ہے جب سال 2015 میں ایک امریکی کمپنی کے ساتھ جاب کے دوران اچانک سے مجھے دوست کی کال میں یہ آگاہ کیا گیا کہ میرا پنجاب یونیورسٹیز کے انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز کے ایم ایس سی میڈیا سٹڈیز کے پروگرام میں نام میرٹ لسٹ کا حصہ بن چکا ہے اور یہ خبر ملنے کی دیر تھی کہ نامور صحافی حامد میر صاحب کا خیال ذہن میں گردش کرنے لگا کیونکہ یہ ہی وہ شخصیت تھی جس کی وجہ سے پاکستان میں میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہر دوسرا سٹوڈنٹ جامعہ پنجاب کے اس ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بننا چاہتا تھا کیونکہ ناصرف حامد میر بلکہ ملکی و غیر ملکی میڈیا میں ورکرز سے لیکر اہم پوزیشنز پر براجمان زیادہ تر صحافیوں کا تعلق اسی ادارے سے تھا تو الیکشن 2013 میں پیدا ہوئے شوق کو عملی جامہ پہننانے کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا، پہلے سمسٹر میں تو کلاس فیلوز کے ساتھ یونیورسٹی کی خوبصورتی سے محظوظ ہوا گیا لیکن جلد ہی لاہور کے ایک نجی چینل سے بطور اینکر کام کا آغاز کر دیا، 2016 سے لیکر آج تک 3 صحافتی اداروں میں کام کرتے وقت سب سے اہم چیز جس نے مجھے پریشان رکھا وہ فیک نیوز تھی، میں نے کوشش کی کہ اس لعنت سے دور رہوں اور الحمدللہ یہ کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن سوشل میڈیا کا عروج جعلی خبروں کی منڈی میں خام مال بیچنے والوں کو بھی ہیرو کی مانند پیش کرنے لگا، فیک نیوز میں اکثر ہمارے اخبارات، ٹی وی چینلز کی جانب سے بھی منفی و غیر ذمہ دار رپورٹنگ ہوئی لیکن اس تباہی میں زیادہ کردار سوشل میڈیا پر بیٹھے نام نہاد صحافیوں نے ادا کیا، کاپی پیسٹنگ کے کلچر نے وقتی طور پر تو کئی اکاؤنٹس کو لائکس و فالوورز بڑھانے میں تو مدد دی لیکن ساتھ ہی ساتھ جعلی خبروں سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا، کچھ ماہ پہلے لاہور کی ایک طالبہ نے کالج پروفیسر پر ہراسگی کا الزام لگایا اور کالج پروفیسر کے خلاف ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا، کچھ روز تک جب پروفیسر صاحب کا سوشل میڈیا پر خوب پوسٹ مارٹم ہو گیا تو ان کو خود کشی کرنی پڑی لیکن بعد ازاں تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ امتحان میں کم نمبرز دینے کی وجہ سے طالبہ نے استاد کو بدنام کیا لیکن کیا کریں بہت دیر ہوچکی تھی قوم ایک معمار سے محروم ہوچکی تھی لیکن وجہ ایک فیک نیوز تھی جسے بغیر تحقیق کے آگے شئیر کیا جاتا رہا، بغیر پاؤں بغیر ہاتھ جعلی خبر اس قدر تیزی سے گردش میں آئی کہ دیکھنے والے یقین ہی کر بیٹھے، ہمارے یہاں آئے روز پاکستانی سٹوڈنٹس کی جانب سے بھی ٹویٹر پر ٹرینڈنگ کی جاتی ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ طلباء کے حقوق سلب کرنے کی بجائے کورونا کی وجہ سے ہوئے نقصان کا ازالہ ریلیف کی صورت میں کریں تاکہ نہ ہی سال کا ضیاع ہو اور نہ ہی تعلیم کا جس کے بعد حکومت کی جانب سے بین الالصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں سٹوڈنٹس کے لیے اہم فیصلہ سازی کی گئی تاہم یہاں بھی لاکھوں سٹوڈنٹس کے ہجوم میں کچھ مفاد پرست ٹولے کے اراکین نے صورتحال کا خوب فائدہ اٹھایا اور فیک نیوز کے ذریعے بچوں کے دلوں دماغ پر غالب ہونے کی کوشش کی گئی، کبھی امتحانی نتائج کی خود ساختہ تاریخ تو کبھی پروموشن پالیسی کی منظوری نہ ہونے کی خبروں نے کئی سٹوڈنٹس کی زندگی اجیرن بنا دی، میٹرک انٹرمیڈیٹ کے سٹوڈنٹس نے جہاں اپنے ہی ہم جماعتوں کے دکھ کو آواز دی اور ایوانوں تک پہنچایا وہیں کچھ ہم جماعتوں نے میٹرک پاس صحافی بننے کی خواہش دل میں لیے سٹوڈنٹس کو جعلی و خود ساختہ خبروں کی منڈی کے گاہک بنانے کی بھی کوشش کی، دیکھ کر دکھ بس اتنا ہوا کہ معصومیت کے سمندر میں بہنے والے کئی سٹوڈنٹس ان جعلی ہتھکنڈوں کا شکار ہو بھی گئے اور امیدوں کی تسبیح پرونے کا آغاز کر دیا لیکن ایسا ہونا نئی بات نہیں، مجھے یاد ہے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا لاہور مال روڈ پر لیگی حکومت کے خلاف احتجاج جاری تھا کہ ہمارے ایک سینئر صحافی نے خبر دی کہ آج اس سٹیج سے پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ اسمبلی اور پیپلزپارٹی سندھ اسمبلی سے احتجاجا استعفوں کا اعلان کرے گی اور پاکستان کے ایک بڑے چینل نے اس خبر کو بطور بریکنگ نیوز اپنے ناظرین کی نظر بھی کر ڈالا لیکن بعد میں ایسا نہ ہو سکا لیکن معروف صحافی آج بھی بڑے فخر سے ٹی وی پر بیٹھ کر اسی رفتار سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں، زلفی بخاری کی بہن کو اہم سرکاری عہدے دینے کی خبر ہو یا خاتون اول بشری عمران خان کی بہن کو ایچ ای سی میں نوازنے کی باتیں یا ان کی جانب سے دوران عدت ایام عمران خان سے شادی کرنے کا پروپیگنڈہ، کسی بھی صورتحال میں نہ ہی خبر دینے والے نے معافی مانگی اور نہ ہی بعد ازاں کہیں اظہار شرمندگی کرتے دکھائی دئیے، اسلام نے خبر کی تصدیق پر بڑے واضع انداز میں زور دیا لیکن ہم بغیر کسی تصدیق کے خبروں کو آگے شئیر کرنا باعث ثواب سمجھ بیٹھے ہیں، صحافتی ذمہ داراریوں کی ادائیگی سے جہاں ایک طرف مظلوم کی آواز بن کر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے ہوئے جنت کی راہداریوں پر قدم رکھا جاسکتا ہے وہیں دوسری جانب جعلی اور غیر تصدیق شدہ خبروں سے کسی نے جذبات سے کھیلنے اور مظلوم کی بجائے ظالم کا آلہ کار بنتے ہوئے جہنم کی آگ کا ایندھن بھی مقدر بن سکتا ہے اس لیے صحافتی اقدار یہ ہی ہیں کہ بجائے نام نہاد زرائع کی باتوں پر اعتماد کی نظریں جمائی جائیں کوشش یہ ہو کہ دیر آئے درست آئے کا ماجرا ہو کہ جب بھی خبر دیں آپ کے قارئین آپ کے سامعین یا ناظرین سب کی معلومات میں اضافہ ہو اور ان کے لیے مفید بھی بن سکیں

Leave a reply